243۔ غم
وَالْهَمُّ نِصْفُ الْهَرَمِ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۱۴۳)
غم آدھا بڑھاپا ہے۔
غم و اندوہ کا جسم و روح دونوں پر اثر ہوتا ہے۔ البتہ جسم سے زیادہ فکر و روح پر اثر ہوتا ہے۔ غمگین انسان اپنے ارادوں اور آراء میں بھی کمزور ہو جاتا ہے۔ علم و معرفت اور صبر و ضبط میں بھی بوڑھے شخص کی طرح کمزور ہو جاتا ہے۔ آج کی طب میں بھی یہ بات واضح ہے کہ بہت سے جسمانی و ذہنی امراض کا سبب یہی غم و فکر ہے۔ اعصاب، امراض دل، معدہ، ذیابیطس اور بلڈ پریشر جیسے امراض کا سبب بھی اکثر یہی غم ہوتا ہے۔ غم کے اسباب مختلف ہوتے ہیں اور انہی کے اعتبار سے علاج ہوتا ہے۔
اکثر غم حقیقی نہیں بلکہ خیالی ہوتے مثلاً یہ خیال کہ فلاں بڑا امیر ہے میں بڑا غریب، میرے ساتھ کل کیا ہوگا یا کسی نے کوئی بات کی اسے پریشانی کا سبب بنا لیا، کسی کے محل کو دیکھ کر اپنی جھونپڑی کو حقیر جانا۔ کبھی ماضی کی یادوں اور کبھی مستقبل کے وسوسوں سے خود کو غم میں الجھا لیا۔ پہلے غم کی وجہ تلاش کرکے اسے دور کرنا چاہیے۔ جو مثبت چیز اس کے پاس ہے اسےاہمیت دے۔ کیا دولت سے غم دور جائیں گے؟ آپ کو نہیں معلوم محل نشین کن غموں میں مبتلا ہے۔
شیخ سعدی کے بارے میں مشہور ہے کہ پاؤں میں جوتے نہ ہونے پر غمگین تھے کہ بغیر پاؤں والے کو مطمئن دیکھا تو مطمئن ہوئے کہ پاؤں تو ہیں۔
امیرالمومنینؑ نے ایک اصول بتایا: ’’اپنے سے کم سہولیات والے کو دیکھو تو جو ہے اس پر شکر ادا کرو۔‘‘ بہت سارے افراد اپنے بہت سے غموں کا مداوا غم زدہ افراد کی مدد کے ذریعے کرتے ہیں۔ کسی کا جوان بیٹا فوت ہو گیا اُس نے چند جوانوں کو بلا کر ضرورت مند افراد کی مدد اور دوسرے جوانوں کی راہنمائی کے وسائل مہیا کرنا شروع کر دیے یوں انسانیت کی خدمت کے ذریعے خود بھی باعزت انسان بن گیا اور دوسروں کو بھی کمال انسانیت کا سبق سکھا دیا ہے۔