245۔ زبان
اَلْمَرْءُ مَخْبُوْءٌ تَحْتَ لِسَانِهٖ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۱۴۸)
انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوا ہے۔
انسان کی قدر و قیمت اور اس کی فکر و نظر کا اظہار زبان کے ذریعے ہوتا ہے۔ ہر شخص کی گفتگو اس کی ذہنی و اخلاقی حالت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ اس سے اس کے خیالات و جذبات کا بڑی آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے لہذا جب وہ خاموش ہے تو اس کا عیب و ہنر پوشیدہ رہتا ہے اور جب اس کی زبان کھلتی ہے تو اس کی حقیقت نمایاں ہوتی ہے۔
زبان ہی کی حرکت سے انسانوں کے دلوں کو بہلایا جاتا ہے اور یہی زبان دلوں کو جلانے کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ قول ہی سے انسان کا ما فی الضمیر ظاہر ہوگا۔ اس لئے حکماء کہتے ہیں کہ کچھ کہنے سے پہلے عقل و معرفت کے ترازو پر قول کا وزن کریں اگر کہنے کے قابل ہے تو کہیں ورنہ خاموشی بہتر ہے۔ حکماء یہ بھی کہتے ہیں اگر آپ کو نہیں معلوم کہ میری بات کرنا فائدہ مند ہے یا نقصان دہ تو بہتر ہے خاموش رہیں۔ البتہ جب کہنے سے کسی انسان کی خدمت ہو سکے تو خاموشی صحیح نہیں۔
شیخ سعدی نے خوب فرمایا: جب تک آدمی بات نہیں کرتا اس کا عیب و کمال مخفی رہتا ہے۔