252۔ مشورہ
مَنِ اسْتَبَدَّ بِرَاْيِهٖ هَلَكَ، وَمَنْ شَاوَرَ الرِّجَالَ شَارَكَهَا فِيْ عُقُوْلِهَا۔ (حکمت ۱۵۸)
جو اپنی ہی رائے کو سب کچھ سمجھتا ہے وہ ہلاک ہوگا اور جو لوگوں سے مشورہ کرے گا وہ ان کی عقلوں میں شریک ہو جائے گا۔
انسان کی زندگی کے اہم امور میں سے ایک مشورہ ہے۔ مشورے کی اہمیت، شرائط اور فوائد کو امیرالمومنینؑ نے بار بار بیان کیا ہے۔ یہ تکرار خود اس کی اہمیت ظاہر کرتی ہے۔ اسلام بڑے بڑے مسائل میں مشورے کا حکم دیتا ہے اور خود رسولؐ اللہ کو حکم دیا ’’اور معاشرت میں ان سے مشورہ کر لیا کریں‘‘، یہ کون سے معاملات ہیں اور کب مشورہ کرنے کا حکم ہے ایک الگ موضوع ہے۔
انسانی زندگی کو سنوارنے کے لئے چھوٹے چھوٹے کاموں میں بھی قرآن نے مشورے کا کہا ہے مثلاً ماں کو حکم ہے کہ بچے کو دو سال دودھ پلائے مگر پھر فرمایا: ’’اگر ماں باپ باہمی رضامندی اور مشورے سے بچے کا دودھ چھڑانا چاہتے ہیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔‘‘
امیرالمومنینؑ نے یہاں واضح فرمایا کہ بہت سے لوگ خود کو عقلِ کل سمجھتے ہیں اور اپنی رائے کو بہت بلند سمجھتے ہیں اس لیے کسی کے ساتھ مشورے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے مگر ایسے افراد اپنی خود رائی اور مطلق العنانی کی وجہ سے ہلاک ہوں گے اور ان کے مقابلے میں جو لوگ دوسروں سے مشورہ کرتے ہوں گویا انھوں نے دوسروں کی عقلوں کو اپنے ساتھ ملا لیا اور اب چند عقلیں مل کر فیصلہ کریں گی تو غلطی کا امکان کم ہوگا۔
بعض لوگ مشورے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں ہم کسی سے مشورہ کریں گے تو وہ شخص ہمیں حقیر و کمزور سمجھے گا اور بعض نے مشورے کی مخالفت میں یہ دلیل دی ہے کہ دوسروں سے مشورہ کرنا یعنی اپنے راز دوسروں کو بتانا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہر کسی سے مشورے کا حکم ہی نہیں، مشورے کی شرائط میں سے ہے کہ وہ شخص امین، رازدار، تجربہ کار اور وفادار ہونا چاہیے۔ بخیل، بزدل، لالچی اور خوشامدی سے مشورہ نہیں کرنا چاہیے۔
ان شرائط کے حامل افراد سے مشورہ ہوگا تو نہ وہ حقارت کے حساب میں آئے گا نہ راز کے افشا میں اس لئے کہ کئی افراد آپ کے تجربات سے ہی تو استفادہ کرنے کے لئے مشورہ کرتے ہیں بلکہ بڑے بڑے حکمران مخصوص شعبوں میں اپنے الگ مشیر مقرر کرتے ہیں۔