253۔ رازداری
مَنْ كَتَمَ سِرَّهٗ كَانَتِ الْخِيَرَةُ بِيَدِهٖ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۱۶۲)
جو اپنے راز کو پوشیدہ رکھے گا اس کا اختیار اس کے ہاتھ میں رہے گا۔
انسان کی زندگی کے وہ مخصوص حالات اور معاملات کہ جن سے اگر دوسرے آگاہ ہو جائیں تو اس کے لئے بہت سی مشکلات بن سکتی ہیں، راز کہلاتے ہیں۔ کوئی شخص کسی خاص مقصد کے لئے کوشاں ہے اور اگر اس کے اہداف ظاہر ہو جائیں تو حاسد رکاوٹیں کھڑی کر دیں گے اور یوں مقصد کا حصول نا ممکن ہو سکتا ہے۔ کسی سے کوئی خطا ہوئی اگر افشا ہو جائے تو ممکن ہے مخالف کی خوشیوں، اپنوں کی شرمساریوں اور اپنے لیے رکاوٹوں کا سبب بن جائے۔ ایسے مواقع پر عقل کا تقاضا یہ ہے کہ راز کو راز رہنے دیں۔
امیرالمومنینؑ یہاں اسی بات کی اہمیت سے آگاہ فرما رہے ہیں کہ جب تک وہ راز آپ کے سینے میں ہے آپ صاحب اختیار ہیں مگر وہ زبان پر آ گیا تو اب آپ کے اختیار سے باہر ہے۔ اسےظاہر کرنے کا جو نتیجہ ہوگا اب اسے برداشت کرنا پڑے گا۔
کسی حکیم نے خوب کہا کہ آپ کا راز خون کے مانند ہے آپ نے کہ دیا تو خون کی طرح بہہ گیا۔ اس دور میں بہت سے ملکوں میں قانون بن چکے ہیں جن کے مطابق بلیک میلنگ یعنی ”راز کے افشا کی دھمکیوں سے کسی سے اپنے مقاصد و منافع حاصل کرنا“ جرم ہے۔ بلیک میلنگ کے خوف سے بہت سے افراد تنگ آ کر خودکشی تک جا پہنچتے ہیں۔
یہ فرمان انسانی زندگی کی اس مشکل کے حل کا بہترین نسخہ ہے کہ راز کو راز میں رکھ کر کسی قریبی کو بھی نہ بتاؤ کیونکہ اس کے بھی قریبی ہیں، وہ ان کو بتائے گا۔ کئی بار خود قریبی ہی خفا ہو جاتے ہیں تو وہی دور والے ہو جاتے ہیں۔ اس لئے راز کو پوشیدہ رکھو تاکہ کل غم سے محفوظ رہو اور زندگی پر سکون رہے۔