254۔ فقر
الْفَقْرُ الْمَوْتُ الْاَكْبَرُ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۱۶۳)
فقر و تنگدستی سب سے بڑی موت ہے۔
انسانی زندگی میں فقر بے شمار مشکلات و مصائب اور دکھوں اور تکلیفوں کا سبب بنتا ہے۔ فقر انسان کی فکر کو سست، دین کو کمزور اور لوگوں کی طرف سے برتاؤ کو ذلت آمیز بنا دیتا ہے۔ امیرالمومنینؑ بار بار فقر کی مذمت کر کے اور فقر سے خوف دلا کر اس سے بچنے کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ فقیر اپنے فقر کو مٹانے کے لئے انسانی آداب و اخلاق اور اجتماعی قوانین و اصول کو پامال کرنا اپنا حق سمجھتا ہے اور مجرمانہ حرکات سے اپنے مقام انسانیت کو برباد کر دیتا ہے بلکہ اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے قتل جیسے گھناؤنے جرم کا بھی مرتکب ہو جاتا ہے۔
اسلام نے انسان کو دنیا میں آبرو مندانہ زندگی گزارنے کا حکم دیا اور فقر جو آبرو پر حرف کا سبب بنتا ہے، سے بچنے کے لئے محنت و کوشش کو عبادت شمار فرمایا۔ فقیر کو صدقہ دے کر بھوک سے نجات کے بجائے اسے فقر سے نجات دلانےکو ترجیح دی۔ صدقہ سے زیادہ قرض کو اہمیت دی اور فقیر کو ہنر مند بنانے کی طرف توجہ دلائی۔ ادھر یہ بھی فرمایا کہ جس کے پاس زمین اور پانی ہے وہ فقیر رہے تو گویا رحمت خدا سے دور ہے یعنی مٹی اور پانی سے اپنے رزق کی کوشش کرے اور حکومتوں کو بھی فقر مٹانے کی تلقین کی۔ امیرالمومنینؑ نے یہاں فقر کو سب سے بڑی موت قرار دیا اس لئے کہ جسمانی موت ایک بار آتی ہے، مگر فقیر فقر کی تنگی اور تنگدستی کی ذلت سے ہر روز دو چار ہوتا ہے۔ بعض بزرگ دعا مانگتے تھے کہ اے اللہ ہمیں فقر کی ذلت اور مال کے تکبر سے محفوظ رکھ۔