263۔ لالچ
اَلطَّمَعُ رِقٌّ مُؤَبَّدٌ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۱۸۰)
لالچ ہمیشہ کی غلامی ہے۔
انسان کی زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ انسانیت ہے۔ جو چیز مقام انسانیت کو محفوظ رکھنے اور اسے بلند کرنے میں مدد کرتی ہے وہ انسانیت کے کمال کا ذریعہ کہلاتی ہے۔ مثلاً انسانیت کی خدمت، خدمت کرنے والے کے مقام کو بڑھاتی ہے۔ اسی طرح کچھ ایسی گھٹیا حرکات ہوتی ہیں جو انسان کو درجہ انسانیت سے گراتی ہیں ان میں سے ایک طمع و حرص ہے۔
گھٹیا اور کم ہمت لوگ اپنی ذات و قوت پر بھروسا کرنے کے بجائے اپنی ضروریات کے حصول کے لئے دوسروں کے ہاتھوں کی طرف دیکھتے ہیں۔ یہ گھٹیا حرکت بہت سی برائیوں کی جڑ ہے۔ دوسروں سے اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے ان کے سامنے جھکنا، خوشامد کرنا، ذلت و توہین برداشت کرنا، اور جو وہ چاہتے ہیں اسے انجام دیناہے، ان کی خاطر جھوٹ بولنا، خیانت کرنا اور اگر وہ ظلم کرتے ہیں تو ظلم کرنے میں ان کا مددگار بن جانا اس پستی کی علامت ہے۔
یوں جس سے لالچ ہوتا ہے انسان اس کا بغیر زنجیر کے غلام بن جاتا ہے اس کی خواہش اس کے گلے کا طوق بن چکی ہوتی ہے اور جب یہ لالچ عادت بن جائے تو پھر ہمیشہ ساتھ رہتا ہے۔
امیرالمومنینؑ یہی فرما رہے ہیں ’’لالچ ہمیشہ کے لیے غلامی کا طوق پہنا دیتا ہے‘‘ اس کا علاج یہ بیان کیا گیا کہ جو لوگوں کے ہاتھوں میں ہے اس سے امید قطع کر دو اور جو آپ کے ہاتھوں میں طاقت ہے اس سے کماؤ اور جو مل جائے اس پر قانع ہو جاؤ۔ آپؑ اس طوقِ طمع کی برائی سے آگاہ کر کے اس سے نجات کی ترغیب دے رہے ہیں۔