266۔ بخل
هَذٰا مَا بَخِلَ بِهِ الْبَاخِلُونَ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۱۹۵)
یہ وہ ہے جس کے ساتھ بخل کرنے والوں نے بخل کیا تھا۔
انسان زندگی بھر دنیا کی چیزوں کو اکٹھا کرتا ہے۔ کبھی تو جائز و نا جائز اور حق و نا حق کو بھی مدنظر نہیں رکھتا اور پھر اسے اتنا سنبھال کر رکھتا ہے کہ بخل شمار ہونے لگتا ہے۔ اس ساری جمع پونچی کا اختتام کیا ہے، اسے امیرالمومنینؑ نے اس فرمان میں بیان فرمایا ہے۔ اس میں بخل کرنے کی مذمت فرمائی ہے اور اس مال منال کی حقیقت سے آگاہ فرمایا ہے۔ یہ بات آپؑ نے کوڑے کے ڈھیر سے گزرتے ہوئے کی یعنی ساتھیوں کو اس دنیا کی حقیقت بتائی اور دکھائی بھی۔ قیمتی کھانے، اعلیٰ لباس، خوبصورت برتن، عالیشان فرنیچر، سب ٹوٹے ہوئے سامنے ہیں۔ یہاں اگر حقیقت واضح نہ ہو تو امامؑ کبھی ماضی میں ان اشیاء کے جمع کرنے والوں کی حالت دکھانے کے لیے قبرستان لے جاتے ہیں اور ان مالکان کی حقیقت واضح کرتے ہیں اور کبھی ٹوٹے ہوئے محلات جو اس وقت کھنڈرات میں بدل چکے ہیں ان کو دکھاتے ہیں۔
اس فرمان میں امامؑ نے خصوصیت سے فرمایا: یہ سب کچھ وہ ہے جس میں بخل کرتے تھے گویا بخل کے بجائے سخاوت، سے کام لیا جائے خود کھانے اور خود سے مخصوص رکھنے کے بجائے دوسرے انسانوں کی بہتری و سہولت کے لیے استعمال کیا جائے تو سامان ختم بھی ہو جائے تو دوسرے انسانوں کے دلوں میں اس تحفے کی یاد اور اس مہربانی کا احساس باقی رہے گا۔
گویا انسان کی کامیابی یہ نہیں کہ اپنے لیے بہت کچھ سمیٹ کر رکھے بلکہ کامیابی یہ ہے کہ سخاوت مندانہ انداز سے دوسروں کی خوشیوں کا ذریعہ بنائے، تو مال و منال دنیا ختم بھی ہو جائے گا تو اسے خرچ کرنے والے کی محبت بھری یاد باقی رہے گی اور انسان کے دل میں انسان کی محبت ہی رہ جانے والا سرمایہ ہے۔ بعض جگہوں پر یوں لکھا ہے کہ آپ نے اس جملے کو یوں بیان فرمایا: ’’یہ وہ ہے جس پر تم کل ایک دوسرے پر رشک کرتے تھے‘‘۔