267۔ عبرت
لَمْ يَذْهَبْ مِنْ مَالِكَ مَا وَعَظَكَ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۱۹۶)
تمہارا وہ مال ضائع نہیں ہوا جو تمہارے لیے عبرت و نصیحت کا باعث بن جائے۔
انسان مالی نقصان پر غمگین و پریشان ہوتا ہے۔ امامؑ اس غم پر تسلی دے رہے ہیں اور اس سے بھی قیمتی سرمائے کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ فوائد و نقصانات زندگی کا حصہ ہیں اگر کسی حادثے یا کسی کی زیادتی یا اپنی کوتاہی سے مال ضائع ہو جاتا ہے تو اسے زندگی کا روگ نہیں بنا لینا چاہیے بلکہ اسے سبق سیکھنے اور تجربے کے حصول کا سبب سمجھنا چاہیے۔
کامیاب لوگ دوسروں کے نقصانات سے بھی سبق سیکھ لیتے ہیں اور جب اپنا کوئی نقصان ہو تو اس سے تو اور بہتر انداز میں درس لیتے ہیں۔ اس فرمان سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ مال ہمیشہ رہنے والی چیز نہیں بلکہ آنے جانے والی چیز ہے اور نقصان کے ذریعے یا کہیں اچھی جگہ پر مال خرچ کرنے سے چلا جائے تو وہ گیا نہیں بلکہ اس سے کچھ حاصل ہوا۔ بعض اوقات مال کسی کو دوست سمجھ کر دیا جاتا ہے اور وہ قابض ہو جاتا ہے یا غائب ہو جاتا ہے تو یہ مال سکھا گیا کہ ہر ملنے والا قابل اعتماد نہیں ہوتا۔ اگر مال نہ جاتا تو ممکن ہے اس شخص سے کوئی بڑا نقصان ہوتا۔
بعض اوقات مال خرچ کرتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ کم پڑ گیا ہے تو حقیقت میں کم نہیں ہوا انسانیت کی خدمت کی وجہ سے اسے بقا مل گئی ہے۔ کسی حکیم سے دولت چھن گئی اور غنی سے فقیر ہو گیا۔ کسی نے کہا: آپ کے مال کا کیا ہوا؟ کہا: میں نے تجارت کی ہے، مال دیا ہے اور تجربہ خریدا ہے، لوگوں کی پہچان ہو گئی ہے، دنیا کی بے وفائی کا یقین ہو گیا ہے۔ اگر یہ سارے امور سامنے ہوں تو مال جانے پر غم نہیں ہوگا بلکہ جو تجربات حاصل ہوئے ہیں انھیں سامنے رکھتے ہوئے زیادہ مال حاصل ہوگا۔