272۔ درگزر
وَ الْعَفْوُ زَكَاةُ الظَّفَرِ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۲۱۱)
درگزر کرنا کامیابی کی زکاۃ ہے۔
انسان اگر خود کو با کمال بنانا چاہتا ہے تو اسے با کمال افراد کے اوصاف اپنانے چاہئیں اور اگر ان اوصاف کو مکمل طور نہ بھی اپنا سکے تو اپنی حد تک کوشش کرنی چاہیے۔ معاف کرنے کی صفت کی عظمت کے لئے یہی کافی ہے کہ اللہ خود کو بار بار اس صفت کے ساتھ پیش کرتا ہے۔
امیرالمومنینؑ نے مختلف مقامات پر مختلف الفاظ میں درگزر کی تعریف کی۔ یہاں اسے کامیابی کی زکاۃ قرار دیا ہے۔ زکات یعنی جو چیز انسان کو اپنی محنت یا قدرت کی طرف سے عطا ہوتی ہے، اس کا فائدہ دوسروں کو پہنچانا۔ کامیابی بھی ایک عطا ہے اور اس کا دوسروں کو فائدہ پہنچانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ دوسروں سے کوئی خطا ہو جائے تو اس سے درگزر کیا جائے اور دوبارہ موقع دیا جائے۔ زکات جس چیز سے دی جائے اس میں برکت و اضافہ کا سبب بنتی ہے۔ کامیابی میں اگر مستحقِ سزا کو بخش دیا جائے تو کامیابی میں اضافہ ہوگا۔
آپ کے مخالف نے یا ماتحت نے کوئی خطا کی تو خود کو کامیابی کا مالک سمجھ کر اور دوسروں کو ضرورت مند مستحق سمجھ کر معاف کر دینا کمال ہے۔