275۔ تجربہ کی حفاظت
مِنَ التَّوْفِيْقِ حِفْظُ التَّجْرِبَةِ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۲۱۱)
تجربہ کی حفاظت اچھائیوں اور کامیابیوں میں سے ہے۔
انسانی زندگی اتنی مختصر اور محدود ہے کہ اگر انسان ہر تجربہ خود کرنے لگے تو زندگی انہی تجربوں میں گزر جائے۔ اس لیے عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ اس مختصر عمر میں جو تجربات خود کرتا ہے ان سے فائدہ اٹھائے اور انھیں اپنی زندگی میں اپنائے مگر اصل کمال یہ ہے کہ گزشتگان کے تجربات کو محفوظ کرے اور ان سے اپنی زندگی میں استفادہ کرے۔ اس لیے حقیقی کامیابی یہی ہے کہ دوسروں کے تجربوں سے سیکھے۔
اس لئے بعض حکماء صاحبان تجربہ کو اہل جہاد اور محبوبان خدا شمار کرتے ہیں۔ جو اپنی زندگی اور دولت کا بڑا حصہ خرچ کر کے اور بار بار ایک چیز کا تجربہ کر کے کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں اور اپنا وہ تجربہ معاشرے کے حوالے کر جاتے ہیں۔ ان تجربوں کے نتائج سے انسانیت کی بہتری اور خدمت کی راہیں روشن کر جاتے ہیں۔ اب وہ تجربہ کر کے انسانیت کے خدمت گزار بن گئے اور کامیاب قرار پائے۔ ایسے لوگ اپنی بقیہ زندگی میں ان تجربوں سے خود بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاتے ہیں یہی سعادت مند اور کامیاب لوگ ہیں۔
جو دوسروں کے تجربوں سے کچھ نہیں سیکھتا گویا عقل کو ضائع کر دیتا ہے۔ بعض مصنفین جنھوں نے کامیاب زندگی کے عنوان سے کتابیں لکھی ہیں کہتے ہیں کہ ہم نے ہزاروں لوگوں کے حالات زندگی پڑھے، ان کے تجربات کو جانا اور انہیں اپنی زندگی میں اپنایا۔
امیرالمومنینؑ اپنی ایک وصیت میں فرماتے ہیں: ’’اگرچہ میں نے اتنی عمر نہیں پائی جتنی اگلے لوگوں کے لیے ہوا کرتی تھی، پھر بھی میں نے ان کے اعمال کو دیکھا، ان کے حالات و واقعات میں غور کیا ان کے چھوڑے ہوئے نشانات میں چلا پھرا یہاں تک کہ گویا میں بھی ان میں سے ایک شمار ہونے لگا۔‘‘
اس جملے کا ایک معنیٰ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اچھائی اور کامیابی کے اسباب اور توفیقات میں سے ایک یہ ہے کہ انسان گزشتگان کے تجربات سے استفادہ کر سکے۔