276۔ تنگ دل پر بھروسا
وَ لَا تَاْمَنَنَّ مَلُوْلًا۔ (نہج البلاغہ حکمت ۲۱۱)
تنگ دل و رنجیدہ شخص پر اعتماد نہ کرو۔
انسانی زندگی میں تلاطم و طوفان اور اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں۔ جو ان مشکلات سے مقابلے کی ہمت رکھتا ہے وہی دوسروں کی مدد بھی کر سکتا ہے۔ وہ شخص جو خود چھوٹی سی تکلیف میں تنگ دل اور اداس ہو جاتا ہے اور آہ و بکا کرنے لگتا ہے وہ کسی دوسرے کی کیا مدد کرے گا۔
بہت سے افراد سب کچھ ہونے کے باوجود فطرتاً ہر وقت غمگین اور اداس رہتے ہیں، ہر چیز کے فقط منفی پہلو انہیں نظر آتے ہیں۔ ان کی زندگی میں کبھی خوشی و نشاط نہیں ہوتی۔ وہ سست مزاج ہوتے ہیں۔ ہر مشکل کام سے بھاگنے کی راہیں تلاش کرتے ہیں۔ کوئی کام شروع کرتے ہیں، معمولی سی رکاوٹ کا سامنا ہوا تو ان میں استقامت و تسلسل نہیں رہتا اور کام چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسے لوگ کسی کی مدد کے قابل نہیں ہوتے اور نہ ہی ان سے مشورہ لینا صحیح ہے کیونکہ یہ دوسروں کو بھی محنت طلب کام سے ڈرائیں گے اور بھاگنے کی راہیں بتائیں گے۔
ایسے لوگ کم ہمت ہوتے ہیں جو ان پر اعتماد و اطمینان کرے گا اسے بھی کم ہمت بنادیتے ہیں۔ ہر وقت ملول اور اداس رہنے والے افراد کسی کا سہارا نہیں بن سکتے بلکہ انہیں با کمال افراد کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے جو انہیں افسردگی اور اداسی سے نکالیں اور انہیں زندگی کے کسی عظیم مقصد کی راہ پر لگائیں۔
امیر المومنین علیہ السلام ملول و افسردہ افراد کی کمزوری کی طرف متوجہ کر کے کمال کی ایک راہ واضح فرما رہے ہیں کہ افسردگی کمال کی رکاوٹ ہے، اس سے دور رہیں اور یقین و اطمینان کہ دولت سے سرشار لوگوں کو نمونہ بنائیں اور ان پر اعتماد کریں ۔ خود امامؑ آخری وقت زخم کھا کر بھی اتنے مطمئن ہیں کہ فرماتے ہیں:
’’رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا‘‘۔