شمع زندگی

277۔ خود پسندی

عُجْبُ الْمَرْءِ بِنَفْسِهٖ اَحَدُ حُسَّادِ عَقْلِهٖ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۲۱۲)
انسان کی خود پسندی اس کے عقل کے حاسدوں میں سے ہے۔

انسان کو جو عادات بلندی سے پستی کی طرف گراتی ہیں ان میں سے ایک عادت خود کو بلند سمجھنا ہے۔ جسے خود پسندی و خود بینی کہا گیا ہے۔ امیرالمومنینؑ نے خود پسندی کی متعدد مقامات پر مذمت کی ہے اس فرمان میں امام علیہ السلام نے خود پسندی کو عقل کا حاسد کہا ہے۔ عقل انسان کو کمال کی راہیں دکھاتی اور انسانیت کی راہ کو روشن کرتی ہے۔ حاسد وہ ہے جو کسی کمال کو برداشت نہ کر سکے اور ان کمالات و عطا کی گئی نعمات کے زوال کی آرزو کرے۔ حاسد نعمت پانے والے کی مخالفت میں ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ معاشرے میں اسے بدنام کرتا ہے اور اس کے عیب ظاہر کرتا ہے۔ افواہوں کے ذریعے لوگوں کو اس سے دور کرتا ہے اور یہ دشمنی اس با کمال کے خاندان تک بڑھا دیتا ہے اور اگر اس کے بس میں ہو تو سب کمالات فوراً اس سے چھین لے۔

امیرالمومنینؑ نےیہاں عُجب و خود پسندی کو عقل کا حاسد قرار دیا ہے یعنی وہی کام جو حاسد کسی با کمال کے لئے انجام دیتا ہے خود پسندی عقل کے لئے وہی کردار ادا کرتی ہے۔ یعنی عقل کو اچھائیوں سے روک دیتی ہے اور اسے کمال تک پہنچانے والے افکار میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ خود پسندی عقل کی نورانیت کے لئے سیاہ بادل بن جاتی ہے اور عقل کی نورانیت سے روشن ہونے والی راہوں کو وحشت و خوف میں بدل دیتی ہے۔ خود پسندی حسد کی طرح بہت سی دوسری بیماریوں کی بنیاد بن جاتی ہے۔ حضرت عیسیٰ ؑسے منقول ہے کہ فرمایا: میں نے اللہ کے اذن سے لا علاج مریضوں کو صحت یاب کیا حتیٰ کہ مُردوں کو بھی زندہ کیا مگر مجھ سے احمق کا علاج نہ ہو سکا۔ سوال ہوا کہ احمق کون ہے تو فرمایا: اس کی سب سے بڑی نشانی خود پسندی ہے، جو سب فضائل اپنے لئے مخصوص سمجھتا ہے اور تمام حقوق کا خود ہی کو مستحق ٹھہراتا ہے اور دوسروں کے کسی حق کا قائل نہیں ہوتا، یہ ہے وہ احمق جس کے علاج کی میرے پاس کوئی راہ نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button