279۔ نرم مزاجی
مَنْ لَانَ عُوْدُهٗ كَثُفَتْ اَغْصَانُهٗ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۲۱۴)
جس درخت کی لکڑی نرم ہو اس کی شاخیں گھنی ہوتی ہیں۔
اس فرمان میں امامؑ نے انسانی زندگی کی خوبصورت اور حسین تصویر کشی فرمائی ہے۔ انسان کو درخت سے تشبیہ دی ہے اور فرمایا ہے کہ جس درخت کا تنا نرم ہو اس کی شاخیں زیادہ اور گھنی ہوتی ہیں۔ بہت سے لوگ اس کے سائے سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ انسان بھی اگر درخت کے تنے کی طرح نرم ہوگا، متواضع اور منکسر المزاج ہوگا، خوش اخلاق و شیریں کلام ہوگا اور لوگوں کے لئے سایہ مہیا کرے گا تو لوگ اس کے اردگرد شاخوں کی طرح موجود رہیں گے اور گزرنے والے لوگ بھی اس سے زیادہ استفادہ کریں گے۔
امیرالمومنینؑ اس تشبیہ سے نرم مزاجی کی ترغیب دلانا چاہتے ہیں اور یوں انسان کی اپنی زندگی کو کامیاب و مفید بنانے کے لیے راہنمائی فرماتے ہیں۔ جس کا اخلاق اچھا ہوگا اس کے چاہنے والے اور مددگار زیادہ ہوں گے اور وہ اپنے مقاصد کو ان معاونین کے ذریعے جلد حاصل کر سکے گا۔ اگر سخت مزاج و تند خو ہوگا تو قریبی بھی چھوڑ جائیں گے۔
رسول اللہﷺ کی نرم مزاجی ہی کو قرآن نے آپ کے گرد لوگوں کے اجتماع کی وجہ بتایا ہے’’تمہیں تکلیف میں دیکھنا ان پر شاق گزرتا ہے وہ تمھاری بھلائی کا نہایت ہی خواہاں ہے‘‘۔ (توبہ ۱۲۸)