282۔ حرص کی بجلیاں
أَكْثَرُ مَصَارِعِ الْعُقُوْلِ تَحْتَ بُرُوْقِ الْمَطَامِعِ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۲۱۹)
اکثر عقلوں کا ٹھوکر کھاکر گرنا طمع و حرص کی بجلیاں چمکنے پر ہوتا ہے۔
انسان کو عقل کی نعمت سے نوازا گیا جو اسے کمال کی راہیں بتاتی ہے۔ عقل انسان کے لئے حق و باطل اور نیک و بد کی پہچان کا ذریعہ ہے۔ مگر یہی عقل بعض اوقات ٹھوکر کھا کر گر جاتی ہے۔ روشنی عطا کرنے والی عقل پر بھی اندھیرے کے پردے پڑ جاتے ہیں۔ عقل کی حقیقت شناس آنکھ چندھیا جاتی ہے اور کچھ دیکھ نہیں پاتی۔ امیرالمومنینؑ نے اس فرمان میں انہی پردوں اور ٹھوکر کھانے کے مقامات کی نشاندہی فرمائی ہے تاکہ انسان اس خطرے سے محفوظ رہ سکے۔ طمع اور لالچ یعنی اس چیز کی خواہش جو اپنی دسترس میں نہیں یا اس پر اپنا حق نہیں۔
امیرالمومنینؑ نے نہایت بلیغ الفاظ میں لالچ کو چمکتی ہوئی آسمانی بجلی سے تعبیر فرمایا ہے۔ آسمانی بجلی ایک لحظہ کی لیے چمک کر ہر جگہ کو روشن کرتی ہے، عارضی طور پر کسی کے لئے راہ چلنے کا ذریعہ بھی بنتی ہے مگر ایک مختصر چمک کے بعد جہاں گرتی ہے وہاں آگ بن کر ہر شے کو راکھ میں بدل دیتی ہے۔ عقل پر بھی جب لالچ کی بجلی کی چمک پڑتی ہے تو اسے صحیح و غلط کی پہچان سے روک دیتی ہے اور وقتی طور پر اسے اس راہ پر لگا دیتی ہے جس کا انجام خود اس لالچی کے لیے بلکہ گاہے دوسرے افراد کے لیے بھی تباہی و بربادی کی صورت میں نکلتا ہے۔ تخت کے حصول کے جھگڑے اور طاقت و قوت کے اظہار نے کتنی جنگیں کرائیں اور کتنے انسان مروائے، اس سے تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ جب یہ چمک ختم ہوتی ہے تو لالچ کرنے والا ہی خود کو برا بھلا کہتا ہے اور اپنے آپ سے پوچھتا ہے کہ میں نے یہ کیا کیا، میں نے یہ کیوں کیا۔
امیرالمومنینؑ نے لالچ کے ذلت آمیز اور رسوائی خیز نتائج کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اس سے بچنے کی ترغیب دلائی ہے۔ لالچ کی مذمت میں آپ کے بہت سے فرامین نقل ہوئے ہیں۔ لالچ ایک ایسا جہنم ہے جس میں جتنا کچھ ڈالا جائے اس کی طلب ختم نہیں ہوتی۔