283۔ بدگمانی
لَيْسَ مِنَ الْعَدْلِ الْقَضَاءُ عَلَى الثِّقَةِ بِالظَّنِّ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۲۲۰)
قابل اعتماد لوگوں کے بارے میں بد گمانی کی بنیاد پر فیصلہ کرنا انصاف نہیں۔
انسانی رابطوں اور اجتماعی زندگی میں ایک اہم اصول اعتماد ہے۔ آپ کسی پر اعتماد کریں گے اور کوئی آپ پر اعتماد کرے گا تو زندگی پُرسکون رہے گی۔ کسی شخص کی زندگی کا بڑا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ معاشرے میں قابل وثوق و اعتماد ہو اور لوگوں کی نگاہوں میں امین ہو۔ بہت سے لوگ اپنی زندگی کا بڑا حصہ خرچ کر کے اس اعتماد کو حاصل کرتے ہیں اور اسی کو اپنی زندگی کا سرمایہ سمجھتے ہیں۔ امیر المومنینؑ یہاں اسے ثقہ کہ رہے ہیں اور ارشاد فرما رہے ہیں کہ ایسے قابل وثوق شخص کے بارے میں بد گُمانی کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہ کریں، ایسا فیصلہ ظلم اور نا انصافی ہے۔ کسی عام شخص پر بھی بد گمانی کرنا اچھا نہیں چہ جائیکہ جس کے اعتماد کو آپ خود جانچ چکے ہوں اور زمانہ بھی اس کا گواہ ہو۔ ایسے شخص سے بد گمانی اس کی دل شکنی کا باعث ہوتی ہے۔
بہت سے لوگ طبعاً بدگمان ہوتے ہیں اور اس بدگمانی کی وجہ سے کسی پر اعتماد نہیں کرتے اور اسی عادت کی وجہ سے لوگ بھی ان پر اعتماد نہیں کرتے۔ یہ روش سب کی زندگیوں کو مشکل بنا دیتی ہے اور سکون چھین لیتی ہے۔ ہر کسی کو چور کی نگاہ سے اور خائن کی نظر سے دیکھیں گے تو جینا دو بھر ہو جائے گا۔ البتہ کچھ لوگوں کا ماضی اچھا نہیں ہوتا اور ظاہر بھی قابل اعتماد نہیں ہوتا تو وہ امامؑ کے اس فرمان میں داخل نہیں ہیں مگر بغیر کسی دلیل و ثبوت کے ایسے افراد کو بھی متہم نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان سے محتاط اور خبردار رہنا چاہیے۔ امامؑ نے اس فرمان میں بد گمانی اور وہ بھی قابل وثوق افراد پر بدگمانی کی مذمت کی ہے اور یوں زندگی سے سکون چھیننے والے ایک خطرے سے آگاہ کر دیا ہے۔