284۔ بدترین توشہ
بِئْسَ الزَّادُ اِلَى الْمَعَادِ الْعُدْوَانُ عَلَى الْعِبَادِ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۲۲۱)
آخرت کے لئے بدترین توشہ و سامان بندوں پر ظلم و تعدی ہے۔
انسان سے زندگی میں جو خطائیں سرزد ہوتی ہیں ان میں سے بعض کا تعلق اس کی اپنی ذات سے ہوتا ہے۔ ایسی خطاؤں کی بخشش کا تعلق خدا سے ہے اور اللہ نے توبہ پر انہیں معاف کرنے کا وعدہ کیا ہے، مثلاً ترک نماز۔ جبکہ بعض خطاؤں کا تعلق دوسرے انسانوں سے ہوتا ہے، جیسے کسی کا مال چوری کرنا، قتل وغیرہ۔ یہ حقوق الناس کہلاتے ہیں۔ انہیں اللہ بھی تب معاف کرتا ہے جب وہ بندہ جس سے ظلم و زیادتی ہو، وہ معاف کرے۔
امیرالمومنینؑ نے یہاں حقوق الناس یعنی انسان کے انسان سے تعلق کی اہمیت کو واضح کیا ہے۔ اگر کسی شخص نے کسی بندے کا حق ضائع کیا تو یہ ظلم ہے اور اس پر اللہ کو راضی کرنے سے پہلے، اس بندے کو راضی کرنا ہوگا۔
انسان کی اہمیت اور دوسرے انسان سے تعلق کے لئے یہ بہت فصیح فرمان ہے۔ اور اگر اس اہمیت کو مدنظر رکھا جائے تو ہر انسان دوسرے کی عزت و احترام کو ملحوظ رکھے، ہر ظلم و زیادتی سے پرہیز کرے۔ یہاں یہ قید بھی نہیں کہ کسی نیک و پارسا بندے سے زیادتی نہ کی جائے بلکہ ہر انسان قابل احترام ہے۔
آپؑ نے فرمایا: آخرت کا بدترین توشہ ظلم و زیادتی ہے تو مقصد یہی ہوگا کہ اگر کوئی بہترین توشہ لے جانا چاہتا ہے تو وہ دوسرے انسانوں کی خدمت کرے۔ قرآن مجید نے کہا ہے آخرت کے لئے بہترین زاد راہ تقوی ہے۔ امیرالمومنینؑ کے اس فرمان کو مدنظر رکھتے ہوئے تقوی کا بہترین مصداق خدمت خلق ہوگی۔