288۔ انصاف
بِالنَّصَفَةِ يَكْثُرُ الْمُوَاصِلُونَ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۲۲۴)
انصاف سے دوستوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
انسان زندگی میں کوشش کرتا ہے کہ اس کے چاہنے والے اور محبت کرنے والے زیادہ ہوں۔ دوستوں اور ملنے ملانے والوں کا دائرہ وسیع ہو۔ انسان کی یہ ایک پسندیدہ خواہش ہے۔ امیرالمومنینؑ نے یہاں ایک اصول بیان فرمایا ہےکہ اگر دوستوں اور چاہنے والوں میں اضافہ چاہتے ہو تو دوسروں سے انصاف کرو۔ انصاف کا اکثر معنی یہ کیا جاتا ہے کہ کوئی شخص دوسرے دو افراد میں کوئی فیصلہ کرے یا کچھ دینا ہو تو برابری و مساوات سے کام لے، یہ بھی ایک بہت اچھی فضیلت ہے مگر اس سے اہم یہ ہے کہ انسان اپنے اور دوسروں کے درمیان انصاف سے کام لے یعنی کسی کے حق کو غصب نہ کرے اور نہ کسی کے حق سے محرومیت کا سبب بنے۔ اپنے فائدے کے لئے کوئی ایسی بات یا کام نہ کرے جس سے دوسرے کا نقصان ہو اور کوئی ایسا قدم نہ اٹھائے جس سے دوسرے کا حق ضائع ہو۔ ہر وقت دوسرے کے حقوق کا خیال رکھے۔
وہ افراد جو اپنا حق ہی نہیں جانتے اور اپنے حق کے لیے کبھی آواز نہیں اٹھاتے انھیں بھی مطلع کرے کہ آپ کا حق کیا ہے اور اس حق کو ادا کرے۔ غریب کا بیٹا سمجھتا ہے کہ شاید میرا حق یہی ہے کہ دوسروں کا خدمت گزار رہوں، ایسی صورت میں اس کا حق اسے بتائے، اسے خود اس کا حق ادا کرے اور دوسروں سے دلوائے۔ اپنے اور دوسرے کے حقوق کو ایک نگاہ سے دیکھے۔
پیغمبر اکرمؐ نے انصاف کی یوں تعریف بیان فرمائی کہ سب سے بڑا صاحب انصاف وہ ہے جو لوگوں کے لیے وہی پسند کرتا ہے جو اپنے لیے کرتا ہے اور دوسروں کے لیے وہ نہیں چاہتا جو اپنے لیے نہیں چاہتا۔ یا آپﷺ نے فرمایا: جیسا چاہتے ہو کہ لوگ تم سے برتاؤ کریں تم اُن سے ویسا ہی برتاؤ کرو۔ کسی کا ایسا منصفانہ کردار ہوگا تو یقیناً اس کے چاہنے والوں میں اضافہ ہوگا۔ البتہ کچھ لوگ اس انصاف سے بڑھ کر ایثار کے مالک ہوتے ہیں یعنی اپنی خواہشوں پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں۔ امیرالمومنینؑ کا فقط یہ قول ہی نہیں بلکہ عمل بھی ایسا ہی تھا یہی وجہ ہے کہ ایک مسیحی مورخ ادیب نے آپؑ کی زندگی پر کتاب لکھی اور اُس کا نام ’’علیؑ انسانی عدالت کی آواز‘‘ رکھا۔