290۔ تواضع
بِالتَّوَاضُعِ تَتِمُّ النِّعْمَةُ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۲۲۴)
تواضع و انکساری سے نعمت تمام ہوتی ہے۔
انسان کو جب زندگی کی سہولیات و نعمات ملتی ہیں تو عموماً خود کو صاحب حیثیت و مقام سمجھ کر دوسروں کے سامنے بڑائی کا اظہار کرنے لگتا ہے۔ یہ بڑائی اسے یہ بھی فراموش کرا دیتی ہے کہ جو نعمت دینے والا ہے وہ لے بھی سکتا ہے اور جس نے نعمات دی ہیں اس نے ان کے استعمال کے طریقے بھی بتائے ہیں۔ جب نعمت پا کر یہ چیزیں بھول جاتی ہیں تو انسان متکبر بن جاتا ہے اور پھر قارون کی طرح کہ اٹھتا ہے ’’یہ سب مجھے اس علم و مہارت کی وجہ سے ملا ہے جو مجھے حاصل ہے‘‘۔
اور اگر اُسے نعمت دینے والا یاد رہے تو پھر دنیا کے عظیم حکمران حضرت سلیمانؑ کا نمونہ سامنے ہوتا ہے کہ جب تخت بلقیس کو اپنے قدموں میں دیکھا تو کہنے لگے ’’یہ میرے پروردگار کا فضل ہے تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت‘‘ اب جو نعمت پا کر شکر کرتا ہے اس کے لئے نعمات میں کئی گنا اضافہ ہوتا ہے۔ اسی کردار کا نام تواضع ہے کہ نعمت متکبر نہ بنائے بلکہ فضل خدا سمجھ کر دوسروں سے حصہ بٹائے اور مخلوق خدا کو اس میں شامل کرے۔
نعمات کی فراوانی اسے خاردار جھاڑی کے کردار میں نہ بدلے بلکہ پھلدار پودے کی طرح بنا دے جس پر پھل لگتا ہے تو اس کی شاخیں جھکنے لگتی ہیں۔ گویا کہ رہی ہیں کہ ہمیں پھل ملا ہے آپ کے لیے بھی حاضر ہے۔ یوں تواضع شکر کی ایک صورت کا نام ہے اور شکر ہی سے نعمات تمام ہوں گی۔
امیرالمومنینؑ ان الفاظ سے انسان میں روحِ تواضع کی پرورش کر رہے ہیں اور بار ہا آپ نے مختلف انداز میں تواضع کی اہمیت سے آگاہ کیا ہے۔ ملائکہ کا پہلے انسان کے سامنے سجدہ اسی تواضع کی بنیاد تھی اور وہ بھی ایک انسان کے سامنے۔ اس لئے انسان انسان کے سامنے متواضع رہے گا تو نعمت تمام ہوگی اور یہ عمل عبادت بھی شمار ہوگی بلکہ پیغمبر اکرمؐ کا فرمان ہے ’’تواضع عبادت کی مٹھاس کا نام ہے‘‘۔