293۔ حلم
بِالْحِلْمِ عَنِ السَّفِيْهِ تَكْثُرُ الْاَنْصَارُ عَلَيْهِ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۲۲۴)
احمق کے مقابلے میں حلم و بردباری کرنے سے طرفدار بڑھتے ہیں۔
انسان کامل کی زندگی کے حسن و جمال میں سے ایک حلم و بردباری ہے۔ زندگی کے اکثر مراحل میں انسان کا جاہل و نادان لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ جتنا کسی کا مقام بلند ہوگا اتنا ہی مختلف لوگوں سے اس کا واسطہ زیادہ پڑے گا۔ اگر کسی احمق سے واسطہ پڑے تو امیرالمومنینؑ نے اس سے برتاؤ کے لئے تحمل و برداشت کی ترغیب دی ہے۔
کسی کی احمقانہ حرکتوں سے انسان کا مقام کم نہیں ہوتا بلکہ وہ سزا کی طاقت رکھتے ہوئے اگر بردباری سے کام لیتا ہے تو اس عظیم کردار پر سمجھدار لوگ اس کے طرفدار و مددگار ہو جائیں گے۔
احمق افراد کی حماقتوں پر ان سے الجھنا اور سزا و انتقام کے درپے ہونا، با عظمت انسان کی شخصیت کو کمزور کرے گا اور احمق کی جرأت و جسارت بڑھے گی اس لئے ایسے افراد کے مقابلے کے لئے بہترین روش بردباری و تحمل اور ان کے احمقانہ عمل سے بے اعتنائی ہے۔
پیغمبر اکرمؐ کی سیرت میں کئی ایسے واقعات ملتے ہیں کہ لوگوں نے آپؐ سے نازیبا سلوک کیا بلکہ بعض آپؐ سے الجھتے بھی رہے مگر آپؐ تحمل سے پیش آتے اور ان کی ہدایت کے لیے دعا کرتے اور ان افراد کی مشکلوں کو حل کرنے کی کوشش کرتے۔
باکمال انسان حلم کے ذریعےاپنے کمال کو اور بڑھاتے ہیں۔ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ کسی باکمال اور مشہور شخص سے نماز کی صفوں میں ایک فقیر نے سوال کیا، اس کے پاس دینے کو کچھ نہیں تھا اس نے معذرت کی تو فقیر نے اس کے منہ پر تھوک دیا۔ اس نے اپنا دامن پھیلا کر لوگوں سے مال کا سوال کیا اور جو کچھ ملا اس فقیر سے معذرت کرکے اس کے حوالے کر دیا۔ فقیر اس کا گرویدہ ہو گیا اور دیکھنے والے اُس کی عظمت کے قائل ہو گئے۔