295۔ دنیا کا غم
مَنْ اَصْبَحَ عَلَى الدُّنْیَا حَزِیْنًا فَقَدْ اَصْبَحَ لِقَضَاءِ اللهِ سَاخِطاً۔ (نہج البلاغہ حکمت ۲۲۸)
جو دنیا کے لیے غمگین ہوتا ہے وہ اللہ کے فیصلوں سے ناراض ہے۔
بعض لوگوں کا مزاج ایسا بن جاتا ہے کہ دنیا کی سہولیات اور مال و منال انھیں ملتا رہے تو وہ خود کو خوش نصیب سمجھتے ہیں اور مطمئن رہتے ہیں اور اگر دنیا کی سہولیات میں سے کچھ نہ ملے تو اللہ سے بھی شکوے کرنے لگتے ہیں۔ امیرالمؤمنینؑ فرماتے ہیں ایسے افراد حقیقت میں اللہ کے فیصلوں سے ناراض ہیں۔
انسان کے لیے کیا مفید اور کیا مضر ہے اسے اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور اگر انسان کو اللہ کی رحمت اور لطف کا یقین ہے تو اس کے فیصلوں پر غم کے بجائے سکون اختیار کرے گا اور ان فیصلوں کے سامنے سر تسلیم خم کرے گا اور جب وہ اللہ کی رحمت کی بنا پر اس کے فیصلوں کو تسلیم کرے گا تو پھر بڑے بڑے مصائب اسےمتزلزل نہیں کر سکیں گے بلکہ حضرت ابراہیمؑ و حضرت اسماعیلؑ کی طرح بڑی سے بڑی قربانی کے لیے تیار ہو جائے گا اور کہے گا کہ میں تیرے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہوں۔
یہ تسلیم اسے سکون کامل عطا کرے گی اور ان فیصلوں کو تسلیم کرنے کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ کچھ لیے جانے پر انسان مایوس نہیں ہوگا۔ اس لیے اگر اطمینان بخش زندگی گزارنی ہے تو یقین کریں کہ اللہ کے جو فیصلے ہوتے ہیں وہ انسان کے لیے بہتر ہی ہوتے ہیں۔ اب اللہ بہتر جانتا ہے مجھے کیا دینا ہے، کتنا دینا ہے اور کیا نہیں دینا۔
انسان کو چاہیے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے اسے اللہ کا سمجھے تو اس میں سے کچھ لے لینے پر اس کا اطمینان بڑھے گا کیونکہ اس کی کوئی چیز میرے پاس تھی، ڈر تھا کہیں ضائع نہ ہو جائے کہیں ٹوٹ نہ جائے اب دینے والے نے لے لی تو مطمئن ہو جائے کہ میری ذمہ داری ختم ہو گئی۔ یہ سکون و اطمینان حقیقت میں اللہ کے فیصلوں پر راضی ہونے کی بنا پر ہوتا ہے۔