296۔ بڑی سلطنت و بڑی نعمت
كَفٰى بِالْقَنَاعَةِ مُلْكًا وَ بِحُسْنِ الْخُلُقِ نَعِیْمًا۔ (نہج البلاغہ حکمت ۲۲۹)
قناعت سے بڑی کوئی سلطنت اور حُسن اخلاق سے بہتر کوئی نعمت نہیں ہے۔
انسان جن چیزوں سے منزل کمال کو پا سکتا ہے اُس کا نچوڑ ان دو جملوں میں موجود ہے۔ قناعت کو سلطنت قرار دیا گیا ہے۔ سلطنت و بادشاہی انسان کو دوسروں سے بی نیاز کرتی ہے بلکہ دوسروں کو حکمرانوں کا محتاج بناتی ہے۔ حکمرانی سے انسان کو اطمینان و سکون ملتا ہے۔ امیرالمومنینؑ نے قناعت اور حسن خلق کی فضیلت کو بار ہا ذکر فرمایا ہے۔
قناعت: یعنی ایک انسان جو اپنی محنت سے حاصل کرتا ہے اسی کو اپنے لئے کافی سمجھتا ہے اور راضی رہتا ہے اور جن خواہشوں کا حصول اس کے بس سے باہر ہوتا ہے اس پر صبر کرتا ہے۔ وہ سب چیزیں جو مملکت و حکومت سے ملتی ہیں اس سے زیادہ قناعت سے میسر آتی ہیں۔ قناعت پسند خود کو کسی کا محتاج نہیں سمجھتا اور جو مل جاتا ہے اس پر مطمئن و راضی ہوتا ہے بلکہ جو اسے نہیں ملتا اس پر بھی راضی رہتا ہے۔
سلطنت کے حصول کے لئے تو تلوار اور اسلحے کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کی حفاظت کے لئے بھی فوج و سپاہ لازم ہوتی ہے مگر قناعت خود انسان کی حفاظت کرتی ہے۔ اس کے حصول کے لیے اسلحہ درکار ہوتا ہے اور نہ اس کی حفاظت کے لیے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: سب سے بڑا غنی و مالدار وہ ہے جو اس پر بھروسا کرتا ہے جو اللہ کے پاس ہے نہ کہ لوگوں کے پاس۔
حسن خلق کتنی بڑی نعمت ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید میں اللہ نے نبی اکرم ؐکی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’بلا شبہ آپ عظیم اخلاق کے مقام پر فائز ہیں۔‘‘ حسن خلق سے انسان دوسروں کے دلوں میں اپنی جگہ بناتا ہے یوں اپنے اردگرد کے ماحول کو خوشگوار بنا لیتا ہے اور یہی انسان کی زندگی کا حسن و جمال ہے۔
قناعت کے ذریعے سکون و اطمینان اور حسن خلق کے ذریعے دوسروں کی محبت ملتی ہے اور یہی چیزیں انسانی زندگی کا کمال ہیں۔