297۔ سخاوت
مَنْ يُعْطِ بِالْيَدِ الْقَصِيْرَةِ يُعْطَ بِالْيَدِ الطَّوِيْلَةِ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۲۳۲)
جو عاجز و قاصر ہاتھ سے دیتا ہے اُسے با اقتدار ہاتھ سے ملتا ہے۔
انسان کی عقل اگر دُنیاوی گرد و غبار سے محفوظ رہے تو فطری طور پر وہ اچھائی کی تلاش میں رہتی ہے مگر بہت سے افراد خود کو کمزور، اکیلا یا غریب سمجھ کر کار خیر کی طرف قدم نہیں بڑھاتے۔ امیرالمومنینؑ نے یہاں ایسے افراد کو اچھے کاموں کی ہمت دلانے کے لیے فرمایا: اپنے اچھے کاموں کو چھوٹا نہ سمجھو، اس لیے کہ ہر کسی کو اجر و انعام اس کی طاقت و وسائل کے مطابق ملے گا۔ اس کی ذمہ داری بھی وہی ہوگی جو اس کے اختیار میں ہے۔
کئی بڑے بڑے کاموں کی اگر بنیاد دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس کام کے پیچھے کسی شخص کے حوصلہ افزائی کے لئے کہے ہوئے دو مثبت جملے ہیں جو اتنے بڑے کام کی وجہ بن گئے۔ اس لیے کسی کو اپنے چھوٹے سے کام، کوشش یا صدقے کو ترک نہیں کرنا چاہیے۔ آپ اپنی طاقت کے مطابق کوشش کریں گے تو اللہ آپ کو کئی گنا اور بعض اوقات بے شمار انعامات دے گا۔ قرآن مجید کی تعلیمات کے مطابق اصحاب کہف معمولی سی تعداد میں ایک مشن کو لے کر اٹھے تھے اور آج تک قرآن میں موجود ان کا قصہ بہت سوں کی حوصلہ افزائی کا ذریعہ بن رہا ہے۔ کوئی اپنے ایک ہاتھ سے کسی کی مدد کرے تو وہی ہاتھ ایک ایک کر کے ایک بڑی خلق خدا بن جائے گا اور یہ خلق خدا اس کے لئے دُعا کرے گی۔اس کی ضرورت پر اس کی مددگار بن جائے گی۔