شمع زندگی

301۔ کرم و مہربانی

اَلْكَرَمُ اَعْطَفُ مِنَ الرَّحِمِ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۲۴۷)
کرم و مہربانی کا جذبہ رشتہ داری سے زیادہ لطف و مہربانی کا سبب ہوتا ہے۔

با کمال انسان دوسروں سے لطف و مہربانی کو اپنی زندگی کا ہدف سمجھتے ہیں اور کریم اُس شخص کو کہتے ہیں جو کسی کے مانگے بغیر یا مانگنے سے پہلے عطا کرے اور وہ اپنی ضرورت پردوسروں کی ضرورتوں کو ترجیح دے، جسے ایثار کہتے ہیں۔ کریم کسی سے توقع کی بنا پر نہیں بلکہ اپنی طبیعت و شرافت کی بنا پر دوسروں سے اچھائی کرتا ہے۔

امیرالمومنینؑ یہاں کرم کی ترغیب و تشویق دلا رہے ہیں اور فرماتے ہیں کچھ لوگ رشتہ داری و قرابت داری کی وجہ سے اپنے رشتہ داروں سے اچھائی کرتے ہیں جو خود ایک اچھی بات ہے اور قرآن کے مطابق ایک فریضہ ہے مگر رشتہ داری کی بنا پر اچھائی میں دوسرے پہلو بھی مد نظر ہوتے ہیں کہ آج ہم رشتہ دار سے اچھائی کریں گےتو کل کو وہ بھی کرے گا یا اگر ہم کسی رشتہ دار کی ضرورت پوری نہیں کریں گے تو معاشرہ کیا کہے گا۔ اگر کوئی اس انداز سے کسی سے مہربانی کرے تو وہ اسے اپنے سگے بہن بھائیوں بلکہ کبھی ماں باپ سے زیادہ مہربان سمجھتا ہے۔ البتہ کریمانہ برتاؤ اگر رشتہ داروں سے ہو تو اس کا درجہ بہت ہی بلند ہوگا۔ تقاضائے کریمی بھی پورا ہوگا اور فریضہ قرابت بھی ادا ہوگا اور ایسا انسان یقیناً کامیاب انسان کہلانے کا حقدار ہوگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button