305۔ کل کا بوجھ
لَا تَحْمِلْ هَمَّ يَوْمِكَ الَّذِي لَمْ يَاْتِكَ عَلٰی يَوْمِكَ الَّذِيْ قَدْ اَتَاكَ۔(نہج البلاغہ حکمت ۲۶۷)
اس دن کے غم و فکر کا بوجھ جو ابھی آیا نہیں آج کے دن پر نہ ڈال جو آ چکا ہے۔
انسان خوشیاں چاہتا ہے اور ان خوشیوں کے حصول کے لیے منصوبہ بندی کرتا ہے اور محنت و مشقت کرتا ہے۔ اب اگر اسے وہ دن نصیب ہو جس دن کو خوش گزارنے کے لیے اتنی محنت کی تھی تو اس دن کو خوشی کے ساتھ گزارنا چاہیے۔ ہمارے معاشرے میں اکثر لوگ خوشی کے اس دن آنے والے کل کی فکرمیں پڑ جاتے ہیں۔ کل یہ نہ ہو جائے، وہ نہ ہو جائے کی فکر میں آج ہی پریشان ہو جاتے ہیں۔
امیرالمؤمنینؑ نے انسان کی خوشی کا ایک نسخہ بتایا ہے کہ کل کے لیے منصوبہ بنائیں، تدبیرکریں مگر منفی سوچ کے باعث کل کے دن کا بوجھ اس دن پر مت ڈالیں جو آ چکا ہے۔ کل ایک چیز ہونی ہے آپ اس کے بارے میں سوچ کر غمزدہ ہو جاتے ہیں، ممکن ہے ایسا نہ ہو جیسا آپ سوچ رہے ہیں۔ آج آپ سکون سے کل کی تدبیر کریں گے تو بہتر ہو گا۔ گھر کا سربراہ اور قوم کا حاکم آنے والے زمانے کے لیے منصوبہ بندی کرے گا اور وہ منصوبہ بندی معاشی بھی ہوگی، تعلیمی بھی ہوگی، تربیتی بھی ہوگی۔
یہاں یہ مقصد نہیں کہ کل کا سوچیں نہیں۔ جو لوگ آنے والے زمانے کے لیے جو طویل مدتی منصوبہ بناتے ہیں وہ کامیاب ہوتے ہیں مگر کل کا سوچ کر حرص میں مبتلا ہو جانا کہ کل کے لیے یہ بچا رکھیں اور کل کے لیے یہ جمع کر رکھیں، صحیح نہیں۔ بعض لوگ اس فرمان سے یہ سمجھتے ہیں کہ جو آج ملا ہے کھا لو کل کا رزق آ جائے گا، یہ سوچ بھی صحیح نہیں ہے کل کا رزق آج کی کوشش سے ملے گا، کل کے لیے آج کوشش کریں، غم نہیں۔