شمع زندگی

307۔ علم و یقین

لَا تَجْعَلُوْا عِلْمَكُمْ جَهْلًا وَ يَقِيْنَكُمْ شَكًّا اِذَا عَلِمْتُمْ فَاعْمَلُوا وَ اِذَا تَيَقَّنْتُمْ فاََقْدِمُوْا۔ (حکمت ۲۷۴)
اپنے علم کو جہل اور یقین کو شک نہ بناؤ۔ جب جان لو تو عمل کرو اور جب یقین پیدا ہو جائے تو قدم بڑھاؤ۔

علم و یقین کا تقاضا یہ ہے کہ اُس کے مطابق عمل کیا جائے اور اگر اس کے مطابق عمل نہیں تو حقیقت میں یہ جہالت ہے بلکہ جہالت سے بھی بدتر ہے چونکہ جاہل کے پاس عذر ہوگا مگر علم کے باوجود عمل نہ کرنے پر کوئی عذر باقی نہیں رہتا۔ اسی طرح اگر یقین ہے مگر اس کے مطابق قدم نہیں اٹھایا جاتا تو وہ یقین حقیقت میں شک کے مانند ہے بلکہ شک سے بھی پست ہے۔

امیرالمومنینؑ یہی فرماتے ہیں کہ اپنے علم کو جہالت اور یقین کو شک نہ بناؤ بلکہ علم و یقین کے مطابق عمل کرو تاکہ تمھارے علم و یقین کی تصدیق ہو۔ علم و یقین کی اصالت کردار و عمل سے ہوگی۔ اس لئے امامؑ نے فرمایا کہ جب علم حاصل ہو تو عمل کرو یقین حاصل ہو تو قدم بڑھاؤ۔ اس فرمان میں درحقیقت عالم بے عمل کی مذمت ہے اور عمل نہ کرنے پر اسے جاہل قرار دیا۔ جیسا کہ قرآن مجید نے حقائق نہ سمجھنے والوں کو آنکھ اور کان رکھنے کے باوجود اندھا اور بہرہ کہاہے۔

دوسرا یہ کہ بہت سے لوگ اپنی زندگی علم و یقین کے حصول میں صرف کر دیتے ہیں اور عمل کی نوبت ہی نہیں آتی۔ اس لیے جو جانتے ہو اس پر عمل کرو۔ گویا علم پر عمل کی اہمیت کو روشن کیا جا رہا ہے۔ علم کی بہت اہمیت ہے مگر حقیقی علم وہی ہے جس کا اثر عمل و کردار میں نظر آئے۔ جب معلوم ہے کہ انسانیت کمال تک تب پہنچتی ہے جب کوئی انسانیت کی خدمت کرے پھر بھی انسان انسانیت کی خدمت نہ کرے تو گویا اُسے انسانیت کی خدمت کی اہمیت ہی معلوم نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button