311۔ پیٹ کی حکومت
كَانَ لِيْ فِيْمَا مَضٰى اَخٌ فِي اللَّهِ، وَ كَانَ يُعْظِمُهٗ فِيْ عَيْنِيْ صِغَرُ الدُّنْيَا فِيْ عَيْنِهٖ، وَ كَانَ خَارِجًا مِنْ سُلْطَانِ بَطْنِهٖ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۲۸۹)
زمانہ گزشتہ میں راہ خدمت میں میرا ایک بھائی تھا جو پیٹ کی حکمرانی سے آزاد تھا۔
اولیاء اللہ کی محبت بھی اللہ کے لیے ہوتی ہے اور کسی سے دوری بھی اللہ ہی کی خاطر۔ کسی حقیقی ولی کامحبوب بھی یقیناً با کمال اور صاحب عظمت ہوگا۔ اس فرمان میں امیرالمؤمنینؑ اپنے کسی محبوب کا ذکر فرماتے ہیں۔ اس کا نام نہیں لیا اس کے اوصاف بیان فرمائے ہیں اور اسے اپنا بھائی کہا ہے۔ وہ کون سے عظیم اوصاف ہیں جو کسی کو علیؑ کے بھائی چارے کے لائق بنا دیتے ہیں۔
ان میں سے پہلی تعریف یہ بیان فرمائی کہ میری نظر میں وہ اس وجہ سے باعزت تھا چونکہ دنیا اس کی نگاہوں میں پست و حقیر تھی۔ دوسری صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ پیٹ کی حکمرانی سے آزاد تھا۔ پیٹ کی حکمرانی آپ کا بہت خوبصورت جملہ ہے یعنی کھانے کی خاطر خود کو کسی کا غلام نہیں بناتا تھا۔ کچھ لوگ اپنا پیٹ بھرنے کی خاطر یوں مشغول ہو جاتے ہیں کہ دوسروں کی بھوک پیاس انہیں یاد نہیں رہتی جبکہ امیرالمؤمنینؑ وصیت 45 میں فرماتے ہیں کہ کیا یہ بیماری کم ہے کہ میں پیٹ بھر کر کھا لوں اور میرے اردگرد بھوکے پیٹ ایک ایک لقمے کو ترس رہے ہوں۔
ایک ساتھی سے فرماتے ہیں کہ جو لقمہ کھاتے ہو اسے اچھی طرح دیکھ لیا کرو، جس لقمے کے متعلق شبہ ہو اسے چھوڑ دیا کرو اور جس کے پاک پاکیزہ طریقے سے حاصل ہونے کا یقین ہو اسےکھایا کرو۔
اپنا پیٹ بھرنے کی تمنا حیوانوں کی عادت ہے، دوسروں کے پیٹ بھرنے کا سوچنا یہ انسان کا کمال ہے۔ کسی حکیم نے کیا خوبصورت جملہ کہا کہ ہم جینے کے لیے کھاتے ہیں کھانے کے لیے نہیں جیتے۔ اگر علیؑ سے بھائی چارہ قائم کرنا ہے تو پیٹ کی حکومت سے آزاد ہو کر اسے عادی کرنا پڑے گا کہ ایک روٹی اور نمک زندگی کی خوراک بن جائے اور پیٹ پر اور دل پر اللہ کی حکومت قائم ہو۔