شمع زندگی

313۔ شکر نعمت

لَوْ لَمْ يَتَوَعَّدِ اللهُ عَلٰی مَعْصِيَتِهٖ، لَكَانَ يَجِبُ اَلَّا يُعْصٰى شُكْرًا لِنِعَمِهٖ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۲۹۰)
اگر خدا نے نا فرمانی کے عذاب سے نہ ڈرایا ہوتا تب بھی اس کی نعمتوں پر شکر کا تقاضا یہ تھا کہ اس کی معصیت و نافرمانی نہ کی جائے۔

انسان کی جتنی معرفتِ پروردگار ہوتی ہے اسی معیار کا اس کا عمل ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اللہ کی نافرمانی سے دوسرے لوگوں سے حیا کی وجہ سے پرہیز کرتے ہیں۔ کچھ اس کی جہنم کے خوف سے ایسا کرتے ہیں مگر امیرالمؤمنینؑ یہاں عقل کے ایک اہم مسئلے کو سامنے رکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر عذاب درمیان میں نہ بھی ہوتا تو عطا کرنے والے کے شکریے کا تقاضا تھا کہ نا فرمانی نہ کی جائے۔

خود امیرالمؤمنینؑ ایک مقام پر فرماتے ہیں نعمت کا کم از کم حق یہ ہے کہ اسے اللہ کی مخالفت میں استعمال نہ کیا جائے۔ اس نعمت کو منعم و عطا کرنے والے کی اطاعت میں استعمال کیا جائے۔ جن کو ان نعمات سے محروم رکھا گیا ہے انھیں اللہ کی دی ہوئی نعمات سے فائدہ پہنچایا جائے۔ بقول کسی بزرگ کے ’’دیے ہوئے سے دیا جائے‘‘ نابینا کا ہاتھ تھام کر منزل تک پہنچانا آنکھوں جیسی نعمت کا حقیقی شکریہ ہے۔ فکری صلاحیت توفیق الہی اور نعمت پروردگار ہے اس سے دوسروں کی بہتری کا سوچیں اور اپنے وقت کو دوسروں کی زندگیاں سنوارنے کے لیے استعمال کریں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button