شمع زندگی

314۔ عبرت

مَا اَكْثَرَ الْعِبَرَ وَ اَقَلَّ الْاِعْتِبَارَ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۲۹۷)
عبرتیں کتنی زیادہ ہیں اور اُن سے سیکھنے والے کتنے کم ہیں۔

زندگی کے حقائق تاریخ کے اوراق، عالی شان محلوں کے کھنڈرات اور قبروں کی خاموشی سے واضح ہوتے ہیں۔ ایک شخص کل کیا تھا اور آج کیا ہے ایسی سوچ انسان کے لیے وعظ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان واقعات و قصص سے صاحبان عقل جو درس و نصیحت لیتے ہیں وہ عبرت کہلاتا ہے۔ قرآن مجید قصوں کو بیان کر کے فرماتا ہے: صاحبان عقل و بصیرت کے لیے ان میں عبرتیں اور نصیحتیں ہیں۔

امیرالمومنینؑ تاکید فرماتے ہیں کہ یہ عبرتیں تو ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں مگر ان سے سیکھنے والے بہت کم ہیں۔ گویا امام علیؑ انسانی زندگی کی بہتری کے لئے ان عبرتوں سے سیکھنے کو بہت اہم سمجھتے ہیں اور کامیاب زندگی سب تجربات خود کرنے سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ کامیاب زندگی گزار کر چلے جانے والوں کے تجربوں سے استفادہ بھی لازمی ہے۔ البتہ جہالت و خواہشات ان اسباق کے حصول میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ دنیا کی محبت اور اس کا نشہ حقائق کے دیکھنے سے غافل کر دیتا ہے۔

انسان اگر عبرت حاصل کرنا چاہے تو ہمارے سامنے موجود ہر ایک شے قابل عبرت ہے۔ ہوا میں زرد رنگ کا اڑتا ہوا پتہ، جو کبھی درخت کی زینت تھا، دوسروں کے سر پر سایہ تھا، درخت سے جڑا ہوا ہونے کی وجہ سے آندھیوں کا مقابلہ کر لیتا تھا آج اپنی اصل سے الگ ہوا تو لوگوں کے پاؤں تلے پامال ہو گیا اور ہلکی سی ہوا بھی اُسے اِدھر سے اُدھر اڑا کر لے جا رہی ہے۔ انسان کی زندگی یوں ہی بدلتی رہتی ہے۔ اس لیے کامیاب لوگ اصل سے خود کو جوڑ کر رکھتے ہیں اور یُوں طوفانوں کا مقابلہ کر لیتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button