317۔ کامیابی کا معیار
مَا ظَفِرَ مَنْ ظَفِرَ الْاِثْمُ بِهٖ وَ الْغَالِبُ بِالشَّرِّ مَغْلُوبٌ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۳۲۷)
جو گناہ سے کامیاب ہوتا ہے وہ کامیاب نہیں ہے اور جو ظلم و شر سے غالب آئے وہ حقیقت میں مغلوب ہے۔
ہر انسان خود کو کامیاب اور فاتح بنانا چاہتا ہے۔ اپنی کامیابی و فتح کے لئے ہر وسیلہ و ذریعہ استعمال کرتا ہے۔ کوئی کامیاب تاجر بننا چاہتا ہے تو وہ یہ نہیں سوچتا کہ میری آمدنی کے بڑھنے سے کسی سے لقمہ تو نہیں چھینا جا رہا اور حکومت و سلطنت کا طالب یہ نہیں سوچتا کہ کامیابی کے حصول کے لئے کسی کا ناحق خون تو نہیں بہایا جا رہا۔ اگر اس قسم کے وسائل استعمال کر کے اپنی کامیابی کی خواہش کو پورا کیا گیا تو یہ کامیابی نہیں بلکہ یہ اس ظلم و گناہ کی کامیابی ہے جسے اس نے استعمال کیا۔
شر و فساد سے اور لاکھوں جانوں کے قتل اور خون کا دریا بہنے سے کوئی غالب آ گیا تو یہ غلبہ نہیں بلکہ انسان ہونے کے ناتے وہ شکست کھا گیا اور حقیقت میں خواہشوں سے مغلوب ہو گیا۔ حقیقت میں کامیاب وہ نہیں جو لوگوں کے جسموں کو غلام بنا لے اور اسیر کرلے بلکہ کامیاب وہ ہوگا جو ایسے ذرائع استعمال کرے جن سے لوگوں کے دلوں کو جیت لے اور انھیں اپنا بنا لے۔ لوگوں کے دل اسلحہ و بارود سے نہیں احسان اور بھلائی سے غلام بنائے جا سکتے ہیں۔
باکمال لوگ اپنے بلند اہداف ہی کو مد نظر نہیں رکھتے بلکہ ان اہداف تک پہنچنے کے ذرائع بھی خلاف انسانیت نہیں ہونے چاہئیں، تب وہ کامیاب کہلاتے ہیں۔ جھوٹ اور ظلم سے ظاہری مقصد حاصل ہو بھی گیا تو حقیقت میں وہ شکست کھا گیا۔
امیرالمومنینؑ ایک مقام پر فرماتے ہیں ’’کیا میں ظلم کر کے نصرت و کامیابی حاصل کروں ،نہیں ہرگز نہیں۔‘‘