شمع زندگی

318۔ عذر سے بے نیازی

اَلْاِسْتِغْنَاءُ عَنِ الْعُذْرِ اَعَزُّ مِنَ الصِّدْقِ بِهٖ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۳۲۹)
سچا عذر پیش کرنے سے زیادہ بہتر ہے کہ عذر کی ضرورت ہی نہ پڑے۔

انسان سے زندگی میں کئی بار غلطیاں ہوتی ہیں۔ کسی کو غلطی کا بعد میں احساس ہوتا ہے اور کچھ کو تو احساس بھی نہیں ہوتا۔ جنھیں غلطی کا احساس ہوتا ہے وہ اس پر معذرت کرتا ہے اور یہ معذرت بھی ہمت چاہتی ہے اور ایک اچھا عمل ہے۔ امیرالمومنینؑ انسان کو اس سے بھی بلند اور باہمت دیکھنا چاہتے ہیں اور اس فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ معذرت میں بھی ایک احساس ندامت و ذلت ہوتا ہے اس لئے انسان کو کوشش کرنی چاہیے کہ کوئی ایسا کام ہی نہ کرے جس پر اسے سچی معذرت کرنی پڑے۔

سچی معذرت یعنی انسان نے سوچ بچار نہیں کی یا جلد بازی کی یا کسی مشکل میں گھر گیا مثلاً کسی سے وعدہ کیا اور واقعا بھول گیا تو اس وعدہ پورا نہ کرنے پر جو معذرت ہوگی وہ سچی معذرت ہوگی۔ مگر کچھ لوگوں کی عادت بن جاتی ہے کہ غلطی کی اور پھر معذرت کرلی، وہ جان بوجھ کر غلطیاں کیے جاتے ہیں اور پھر اس عادت ہی کے طور پر معذرت کر لیتے ہیں۔ کسی سے وعدہ کیا اور جان بوجھ کر پورا نہیں کیا اور معذرت کی تو یہ جھوٹی معذرت ہوگی۔

امیرالمومنینؑ نے فرمایاکہ ایسا کام نہ کرو کہ سچی معذرت بھی کرنی پڑے، یہ خود آپ کی ایک کمزوری ہے۔ وہ بات نہ کہو جس پر معذرت کرنی پڑے اس جگہ نہ جائیں جہاں جانے پر معذرت کرنی پڑے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button