321۔ پاک دامنی
الْعَفَافُ زِينَةُ الْفَقْرِ وَ الشُّكْرُ زِينَةُ الْغِنَى۔ (نہج البلاغہ حکمت ۳۴۰)
عفت و پاک دامنی فقر کی زینت اور شکر دولت مندی کی زینت ہے۔
انسان کی زندگی میں اسے کبھی فقر کا سامنا ہوتا ہے اور کبھی عیش و عشرت میسر آتی ہے۔ ان دونوں متضاد حالتوں میں انسان خود کو کیسے عزت و آبرو سے رکھے اسے یہاں بیان کیا گیا ہے۔ اگر کوئی شخص مال سے محروم ہے تو بھی اسے اپنی انسانیت کی فضیلت کی حفاظت کرنی ہے اور اس حفاظت کو امامؑ نے عفت سے تعبیر کیا ہے یعنی خواہشات کا جو تقاضا ہوتا ہے عقل اس کی اجازت نہیں دیتی۔
خواہش کہتی ہے میرا وسیع دستر خوان ہو لیکن حالات اس کی اجازت نہیں دیتے۔ عقل کہتی ہے خشک روٹی نصیب ہے تو اسی پر اکتفا کر لو، کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلاؤ، حرام طریقے سے حاصل نہ کرو اور جہاں ضروریات پوری کرنے کے لیے کسی کے سامنے سوال کرنا ہی پڑے تو کسی شریف کو دیکھو اور کم سے کم پر خود کو مطمئن کر لو۔ دولت مند کے سامنے سر نہ جھکاؤ، اور اپنی ضروریات ہر کسی کو مت بتاتے پھرو۔ یہی چیز عرف میں عفت کہلاتی ہے اور امیرالمومنینؑ نے اسی کو فقر کی زینت قرار دیا ہے۔
قرآن مجید نے ایسے افراد کی تعریف کی ہے کہ جن کی عفت و خود داری کی وجہ سے لوگ انھیں غنی سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف جسے مال ملا ہے اس کی دولت مندی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنی ضروریات کے مطابق خرچ کرے اور باقی میں دوسروں کو شامل کرے، بخل نہ کرے، غرور و تکبر میں مبتلا نہ ہو بلکہ امیرالمومنینؑ نہج البلاغہ میں ایک مقام پر فرماتے ہیں کہ حقیقی سخاوت یہی ہے کہ سوال کرنے سے پہلے دیا جائے، سوال کرنے پر دینا تو شرمساری سے بچنے کے لیے ہے۔ دولت ملے اور مخلوق خدا کی بہتری اور بھلائی کے لئے عملی قدم اٹھائے تو یہی شکر ہے اور اسی شکر کو آپ نے دولت کی زینت قرار دیا ہے۔
فقیر سوال نہ کرے اور دولت مند محتاج کے سوال کا انتظار نہ کرے تو یوں دونوں کے ذریعے سے انسانیت کو زینت ملے گی۔ فقیر فقر چھپائے امیر دینے کا فخر چھپائے یہی فقر و دولت کی زینت ہے۔ علامہ اقبالؒ نے اس کا نسخہ یوں پیش کیا ہے۔
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے