325۔ عیب جوئی کا علاج
مَنْ نَظَرَ فِى عَيْبِ نَفْسِهِ اشْتَغَلَ عَنْ عَيْبِ غَيْرِهٖ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۳۴۹)
جو اپنے عیوب پر نظر رکھے گا اسے دوسرے کے عیب تلاش کرنے کی فرصت ہی نہیں ملے گی۔
ہر شخص میں کچھ کمزوریاں پائی جاتی ہیں، کچھ میں کم تو کچھ میں زیادہ۔ اس لیے آدمی کو چاہیے کہ دوسروں کے عیب تلاش کرنے کے بجائے اپنے عیوب کی اصلاح کرے ۔ جو اپنی اصلاح کے درپے ہوتا ہے اسے دوسرے کے عیب تلاش کرنے کی فرصت ہی نہیں رہتی، فرصت ہو بھی تو اسے شرم آتی ہے کہ میرے اپنے اندر اتنے عیب ہیں، میں دوسروں کے عیب کی تلاش میں کیوں رہوں۔ یعنی عیب تلاش کرنے سے یا کسی کے عیب سامنے آئیں تو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے اور ہر کسی کو بتانے سے منع کیا گیا ہے۔
انسان دوسروں کی ہر غلطی شمار کرتا ہے جب کہ خود کو کامل سمجھتا ہے۔ اسے چاہیے کہ پہلے اپنی اصلاح کرے پھر دوسروں کی۔ امیر المؤمنینؑ ایک مقام پر فرماتے ہیں کہ عقل مند ترین آدمی وہ ہے جو اپنے عیبوں پر نظر رکھتا ہے اور دوسروں کے عیبوں سے آنکھ بند رکھتا ہے۔ بہادر شاہ ظفر نے اس مفہوم کو یوں پیش کیا:
نہ تھی حال کی جب اپنی ہمیں خبر،
رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر،
تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا