326۔ رضا
مَنْ رَضِيَ بِرِزْقِ اللّٰہِ لَمْ يَحْزَنْ عَلَى مَا فَاتَهٗ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۳۴۹)
جو اللہ کے دیے ہوئے رزق پر راضی رہے گا وہ نہ ملنے والی چیز پر غمزدہ نہیں ہوگا۔
انسانی زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ سکون ہے اور اس فرمان میں سکون کا سبب بیان فرمایا ہے۔ رضا یعنی کسی کے فیصلوں پر مطمئن و خوش ہونا۔ اس کے فیصلے یا حکم پر دل میں کوئی اعتراض نہ کرنا۔ اس مقام رضا کو حاصل کرنے میں زحمات بھی اٹھانی پڑیں تو اس کی اہمیت مد نظر رکھتے ہوئے تکلیف برداشت کرنا۔ اب اگر کوئی اللہ کی نعمات و عطا پر جو اسے ملی ہیں مطمئن و راضی ہو جائے تو جو اسے نہیں ملا یا دے کر اس سے لے لیا گیا ہے اس پر غمزدہ نہیں ہوگا کیونکہ اسے یقین ہے کہ میرا حصہ اتنا ہی تھا۔ ملے تو خوش، نہ ملے تو بھی خوش چونکہ اس کے فیصلے پر راضی ہے۔
اب کوئی اللہ سے اس انداز میں راضی ہو تو اللہ بھی اس سے راضی اور یہ نفس مطمئنہ کا مصداق بن جائے گا جس نفس مطمئنہ کو دعوت دی گئی ہے کہ اپنے رب کی طرف لوٹ آؤ اس حالت میں کہ آپ اللہ سے راضی اور اللہ آپ سے راضی ۔ کچھ لوگوں کو بہت کچھ ملا ہوا ہوتا ہے مگر تھوڑا سا نہ ملنے پر غمگین رہتے ہیں۔ یعنی دیے جانے والی چیز پر مطمئن نہیں ہوتے اور نہ دی جانے والی کی فکر میں رہتے ہیں۔