329۔ زیادہ بولنا
مَنْ كَثُرَ كَلَامُهُ كَثُرَ خَطَؤُهُ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۳۴۹)
جو زیادہ بولے گا وہ زیادہ غلطیاں کرے گا۔
امیر المؤمنینؑ نے متعدد بار اور مختلف الفاظ میں زیادہ اور بے مقصد باتیں کرنے سے منع کیا ہے۔ اس لیے کہ آدمی زیادہ باتیں کرتا ہے تو اُسے سوچ کر بات کرنے کا موقع نہیں ملتا وہ بے سوچے باتیں کرتا چلا جاتا ہے۔ یوں غلط باتیں کر جاتا ہے۔ اس فرمان میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ جب غلطیاں زیادہ ہونے لگتی ہیں تو پھر غلط کام کی شرم و حیا بھی ختم ہو جاتی ہے اور جب شرم و حیا ختم ہو جائے تو پھر تقوی و پرہیز گاری ختم ہو جائے گی اور جب تقوی و پرہیز گاری ختم ہو جائے گی تو دل مردہ ہو جاتا ہے۔ دل مردہ ہو جائے تو پھر رب کے سامنے مسئولیت و ذمہ داری کا احساس ختم ہو جائے گا اور یوں جس کا دل مردہ ہوگیا وہ جہنم کا حقدار قرار پائے گا۔ اس لیے زبان پر کنٹرول انجام کار کی سعادت کے لیے ضروری ہے اور اپنی عزت کی حفاظت کے لیے زبان کی حفاظت ضروری ہے۔