331۔ موت کی یاد
مَنْ اَکْثَرَ مِنْ ذِكْرِ الْمَوْتِ رَضِيَ مِنَ الدُّنْيَا بِالْيَسِيْرِ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۳۴۹)
جو موت کو زیادہ یاد رکھتا ہے وہ تھوڑی سی دنیا پر خوش رہتا ہے۔
انسانی زندگی کی ایک حد ہے، جتنا بھی جیئے آخر میں اس زندگی کو ختم ہو جانا ہے۔ جب انسان اس اختتام کو بھول جائے اور خود کو ہمیشہ کے لیے یہاں رہنے والا سمجھ بیٹھے تو دنیا سے جتنا بھی ملے گا اسے کم سمجھے گا جب کہ موت کو یاد رکھنے والا یہ جانتا ہے کہ اِس دنیا سے اُس دنیا میں ساتھ کچھ نہیں لے جانا۔ بلکہ قیمتی زمینوں کے مالک کے پاس بھی کل چھ فٹ زمین رہے گی۔ اور دولت جتنی بھی جمع کرلے بغیر سلے لباس کے چند ٹکڑے اس کے ساتھ ہوں گے۔ ایسے شخص کو جوکچھ ملا ہے اس پر راضی رہتا ہے اور اس دنیا میں رہ کر موت کے بعد کی دنیا کی فکر کرتا ہے اور وہاں کام آنے والی چیزوں کے حصول کے لیے کوشش کرتا ہے اور اپنے جانے سے پہلے وہاں کے لیے جو بھیج سکتا ہے وہ بھیجتا رہتا ہے۔ کبھی ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کر کے وہ مال اپنے سے پہلے آخرت کے لئے بھیجتا ہے تو کبھی کسی نیک کام کی بنیاد ڈال دیتا ہے جو اس کے جانے کے بعد بھی اس کے کام آتی رہتی ہے۔