2۔ بزرگی و عظمت الٰہی کے بیان میں حضرتؑ کی دعا
۲۔ { دُعَآءٌ وَّ تَمْجِیْدٌ لَّہٗ عَلَیْہِ السَّلَامِ}
بزرگی و عظمت الٰہی کے بیان میں حضرتؑ کی دُعا:
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ تَجَلّٰى لِلْقُلُوْبِ بِالْعَظَمَةِ، وَ احْتَجَبَ عِنِ الْاَبْصَارِ بِالْعِزَّةِ، وَ اقْتَدَرَ عَلَى الْاَشْیَآءِ بِالْقُدْرَةِ، فَلَا الْاَبْصَارُ تَثْبُتُ لِرُؤْیَتِهٖ، وَ لَا الْاَوْهَامُ تَبْلُغُ كُنْهَ عَظَمَتِهٖ.
تمام تعریف اس اللہ کیلئے ہے جو اپنی عظمت کے ساتھ دلوں پر روشن و درخشاں ہے، اور اپنی عزت کے ساتھ آنکھوں سے پنہاں ہے، اور تمام چیزوں پر اپنے اقتدار سے قابو رکھتا ہے، نہ آنکھیں اس کے دیدار کی تاب لا سکتی ہیں اور نہ عقلیں اس کی عظمت کی حد تک پہنچ سکتی ہیں۔
تَجَبَّرَ بِالْعَظَمَةِ وَ الْكِبْرِیَآءِ، وَ تَعَطَّفَ بِالْعِزِّ وَ الْبِرِّ وَ الْجَلَالِ، وَ تَقَدَّسَ بِالْحُسْنِ وَ الْجَمَالِ، وَ تَمَجَّدَ بِالْفَخْرِ وَ الْبَهَآءِ، وَ تَجَلَّلَ بِالْمَجْدِ وَ الْاٰلَآءِ، وَ اسْتَخْلَصَ بِالنَّوْرِ وَالضِّیَآءِ.
وہ اپنی عظمت و بزرگی کے ساتھ ہر چیز پر غالب ہے، اور عزت و احسان و جلالت کی رِدا اوڑھے ہوئے ہے، حسن و جمال کے ساتھ نقائص سے بری ہے، اور فخر و سر بلندی کے ساتھ شرف و بزرگی کا مالک ہے، اور خیر و بخشش کی فراوانی اور (عطائے) نعمات سے خوش ہوتا ہے، اور نور و روشنی کے ساتھ (تمام عالم سے) امتیاز رکھتا ہے۔
خالِقٌ لَّا نَظِیْرَ لَهٗ، وَ اَحَدٌ لَّا نِدَّ لَهٗ، وَ وَاحِدٌ لَّا ضِدَّ لَهٗ، وَ صَمَدٌ لَّا كُفْوَ لَهٗ، وَ اِلٰهٌ لَّا ثَانِیَ مَعَهٗ، وَ فَاطِرٌ لَّا شَرِیْكَ لَهٗ، وَ رَازِقٌ لَّا مُعِیْنَ لَهٗ.
وہ ایسا خالق ہے جس کا کوئی نظیر نہیں، وہ ایسا یکتا ہے جس کا کوئی مثل نہیں، وہ ایسا یگانہ ہے جس کا کوئی مد مقابل نہیں، وہ ایسا بے نیاز ہے جس کا کوئی ہمسر نہیں، وہ خدا جس کا کوئی دوسرا نہیں، وہ پیدا کرنے والا ہے جس کا کوئی شریکِ کار نہیں،وہ رزق دینے والا ہے جس کا کوئی مددگار نہیں۔
وَ الْاَوَّلُ بِلَا زَوَالٍ، و الدَّآئِمُ بِلَا فَنَآءٍ، وَ الْقآئِمُ بِلَا عَنَآءٍ، وَ الْمُؤْمِنُ بِلَا نِهَایَةٍ،وَ الْمُبْدِئُ بِلَاۤ اَمَدٍ، وَ الصَّانِعُ بِلَاۤ اَحَدٍ، وَ الرَّبُّ بِلَا شَرِیْكٍ، وَ الْفَاطِرُ بِلَا كُلْفَةٍ، وَ الْفَعَّالُ بِلَا عَجْزٍ.
وہ ایسا اوّل ہے جسے زوال نہیں، وہ ایسا باقی و جاوید ہے جسے فنا نہیں، وہ دائم و قائم ہے بغیر کسی رنج و مشقت کے، وہ امن و امان کا بخشنے والا ہے بغیر کسی حد و نہایت کے، وہ ایجاد کرنے والا ہے بغیر کسی مدت کی حد بندی کے، وہ صانع و بغیر کسی ایک (کی اعانت) کے، وہ پروردگار ہے بغیر کسی شریک کے، وہ پیدا موجد ہے کرنے والا ہے بغیر کسی زحمت و دشواری کے، وہ کام کرنے والا ہے بغیر عجز و درماندگی کے۔
لَیْسَ لَهٗ حَدٌّ فِیْ مَكَانٍ، وَ لَا غایَةٌ فِیْ زَمَانٍ، لَمْ یَزَلْ وَ لَا یَزُوْلُ، وَ لَنْ یَّزَالَ كَذٰلِكَ اَبَدًا، هُوَ الْاِلٰهُ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ، الدَّآئِمُ الْقَادِرُ الْحَكِیْمُ.
اس کی کوئی حد نہیں مکان میں، اور نہ اس کی کوئی انتہا ہے زمانہ میں، وہ ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہے گا، یونہی ہمیشہ ہمیشہ، اسے کبھی زوال نہ ہو گا، وہی خدا ہے جو زندہ،قائم و دائم، قدیم، قادر اور علم و حکمت والا ہے۔
اِلٰهِیْ عُبَیْدُكَ بِفِنَآئِكَ، سآئِلُكَ بِفِنَآئِكَ، فَقِیْرُكَ بِفِنَآئِكَ. {ثَلَاثًا}
بار الٰہا! تیرا ایک بندۂ حقیر تیرے ساحتِ قدس میں حاضر ہے، تیرا سائل تیرے آستانہ پر حاضر ہے، تیرا محتاج و دست نگر تیری بارگاہ میں حاضر ہے۔ {ان تینوں جملوں کو تین مرتبہ دہرائے}
اِلٰهِیْ لَكَ یَرْهَبُ الْمُتَرَهِّبُوْنَ، وَ اِلَیْكَ اَخْلَصَ الْمُسْتَهِلُّوْنَ، رَهْبَةً لَّكَ وَ رَجآءً لِّعَفْوِكَ.
اے میرے اللہ! تجھ ہی سے عبادت گزار ڈرتے ہیں، اور تیرے خوف اور اُمید و عفو و بخشش کے پیش نظر عاجزی سے التجا کرنے والے تجھ سے لو لگاتے ہیں۔
یَاۤ اِلٰهَ الْحَقِّ ارْحَمْ دُعَآءَ الْمُسْتَصْرِخِیْنَ، وَ اعْفُ عَنْ جَرَآئِمِ الْغٰفِلِیْنَ، وَ زِدْ فِیْۤ اِحْسَانِ الْمُنِیْبِیْنَ یَوْمَ الْوُفُوْدِ عَلَیْكَ، یَا كَرِیْمُ.
اے سچے معبود! استغاثہ و فریاد کرنے والوں کی پکار پر رحم فرما، اور غفلت میں گرفتار ہونے والوں کے گناہوں سے درگزر فرما، اور اے کریم! اپنی بارگاہ میں توبہ کرنے والوں کے ساتھ اس دن کہ جب وہ تیرے سامنے پیش ہوں نیکی اور احسان میں اضافہ فرما۔
–٭٭–
یہ دُعا خداوند عالم کی عظمت و بزرگی اور اس کے اوصافِ کمال کے بیان کے سلسلہ میں ہے۔
الٰہی صفات کے بیان سے جہاں یہ مقصد ہے کہ انسان خدا شناسی کی منزل سے قریب ہو، وہاں یہ بھی مقصد ہے کہ معبود کی رفعت و بلندی کا تصور اس میں نوعی رفعت و سربلندی کا احساس پیدا کرے تا کہ وہ اس کائنات میں اپنے کو بلند درجہ سمجھتے ہوئے خالق کائنات کے علاوہ کسی اور کی پرستش و عبادت کا تصور بھی نہ کرے اور اس بلندی کے احساس کے پیش نظر اپنے عمل و کردار میں بھی بلندی پیدا کرنے کی کوشش کرے۔
صفات الٰہی میں سے پہلی صفت یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ انسان کے قلب و ضمیر سے پنہاں نہیں ہے، کیونکہ ہر چیز میں اس کی نمود اور ہر شے میں اس کی جلوہ ریزی ہے۔ چنانچہ زمین، آسمان، چاند، سورج، دریا، پہاڑ اور کائنات کا ہر ذرّہ اس کے وجود کی ایک محکم برہان ہے۔ اگر کوئی شخص کسی نقاش کو نقش کھینچتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ یہ یقین کرنے پر مجبور ہے کہ وہ زندہ بھی ہے، عالم بھی ہے، قادر بھی ہے اور مرید بھی۔ اس لئے کہ حیات، علم، قدرت اور ارادہ کے بغیر نقاش کا ہاتھ نقش نہیں کھینچ سکتا۔ تو اگر اس کے ہاتھ کی حرکت کو دیکھ کر ان اوصاف کا یقین ہو جاتا ہے، حالانکہ اس حرکت کے مشاہدہ کے علاوہ اور کوئی دلیل موجود نہیں ہے تو کیا کائنات کے نقش بدیع کو دیکھنے کے بعد صانع کے وجود اور اس کی صفتِ علم و قدرت سے انکار کی گنجائش ہو سکتی ہے؟ اور جس کے وجود پر اتنے شواہد موجود ہوں وہ چشمِ بصیرت سے مخفی رہ سکتا ہے؟ ہرگز نہیں! جبکہ دل، ضمیر، فطرت اور وجدان اس کے وجود کی شہادت دے رہے ہیں اور اس کی ہستی کے دلائل اتنے قوی ہیں کہ ہر شخص اس کا اقرار کرنے پر مجبور ہے اور نظمِ کائنات کو دیکھنے کے بعد یہ تصور کہ یہ عالم بعض عناصر کے اِتفاقی میل کا نتیجہ ہے عقل و فہم سے بمراحل دور ہے۔ اس لئے کہ ہر چیز کی تہ میں ایک حکیمانہ نظام کار فرما نظر آتا ہے اور ہر شے اپنے مقام پر ایک خاص موزونیت کی حامل دکھائی دیتی ہے جسے محض اتفاقیہ نہیں قرار دیا جا سکتا۔ چنانچہ اس عالم کے نظم و نسق اور وضع و ساخت کو دیکھنے کے بعد یہ تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ کار ہی نہیں ہے کہ اس کائنات ہستی کا کوئی خالق و صانع ہے جو حکیم، مدبر اور تمام صفاتِ کمال کا جامع ہے۔
دوسری صفت یہ ہے کہ وہ دیکھنے والوں کی نگاہوں سے اپنے غلبہ و عزت کی وجہ سے پوشیدہ ہے اور یہ پوشیدگی اس طرح کی نہیں ہے جس طرح شاہوں اور فرمانرواؤں کی پوشیدگی ہوتی ہے کہ وہ دروازوں پر پردے لٹکا کر اور پہرے کھڑے کرکے رعایا کی نظروں سے پنہاں رہتے ہیں تا کہ ان کے رعب و تمکنت میں فرق نہ آئے اور نہ اس طرح پوشیدہ ہے جس طرح چمگادڑ کی نگاہ سے سورج پوشیدہ ہو جاتا ہے کہ یہ کہا جائے کہ اس کے نور کی تابش اور جمال کی طغیانی رویت سے مانع ہے۔ کیونکہ وہ اس لئے پوشیدہ نہیں ہے کہ نگاہیں اس کے سامنے مضمحل ہو جاتی ہوں، بلکہ وہ ذاتا ناقابل رویت ہے۔ اس لئے کہ اگر وہ دیکھے جانے کے قابل ہوتا تو نگاہوں کی محدود وسعت سے اسے بھی محدود ہونا پڑتا اور جبکہ اس ذاتِ غیر محدود کیلئے محدود ہونا ناممکن ہے تو اس کے دیکھے جانے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
تیسری صفت یہ ہے کہ وہ قادرِ مطلق ہے۔ اس لئے اپنی ہی قوت و طاقت سے ہر چیز پر اقتدار رکھتا ہے، نہ ان سلاطین کی طرح جو لشکر و سپاہ اور اعوان و انصار کی بدولت اقتدار حاصل کرتے ہیں۔ اگر ایسا ہو تو وہ جن سے مدد لے گا ان کا محتاج قرار پائے گا اور احتیاج ممکن کا خاصہ ہے نہ واجب کا۔
چوتھی صفت یہ ہے کہ انسانی عقلیں اس کی واقعی حقیقت سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اس لئے کہ عقل و ادراک کی قوتیں محدود ہیں اور خدا لامحدود ہے۔ اور محدود، غیر محدود کا اِحاطہ کر نہیں سکتا کہ عقل و فہم میں سما سکے۔
پانچویں صفت یہ ہے کہ وہ یگانہ ہے اور کائنات کے پیدا کرنے میں کوئی اس کا معاون و شریکِ کار نہیں ہے۔ اس لئے کہ اگر دو خالق ہوں تو ان میں سے ایک کسی کام کو کرنا چاہے تو دوسرا اس کا ہمنوا ہو گا یا مخالف۔ اگر ہمنوا ہے تو اس کی ہمنوائی کا فائدہ و نتیجہ ہی کیا جبکہ وہ تنہا اس کام کو انجام دینے کیلئے کافی ہے۔ اور اگر مخالف ہے تو اس صورت میں یا وہ دونوں ناکام ہوں گے یا ان میں سے ایک کامیاب ہو گا اور دوسرا ناکام۔ پہلی صورت میں دونوں خدا نہ رہیں گے اور دوسری صورت میں ناکام ہونے والا خدا نہ رہے گا۔ لہٰذا جب دوسرے کی احتیاج ہی نہیں ہے تو ایک بے کار وجود کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔
چھٹی صفت یہ ہے کو وہ اول ہے اس لئے کہ تمام سلسلہ موجودات اس پر منتہی ہوتا ہے اور جو تمام کائنات کا نقطہ آخر اور علۃ العلل ہو تو وہ یقینا سب سے اول و اقدم ہو گا۔
ساتویں صفت یہ ہے کہ وہ مکان و زمان کے حدود سے بالاتر ہے۔ اس لئے کہ مکان و زمان کی تقیید و حد بندی صفاتِ اجسام میں سے ہے اور وہ جسم و جسمانیات سے منزہ ہے۔ اور دوسرے یہ کہ زمان و مکان حادث ہیں اور جب وہ کسی مخلوق و حادث کا پابند ہو گا تو واجب الوجود نہ رہے گا اور جب کہ وہ حادث قرار پایا تو اس کیلئے فنا و زوال بھی ضروری ہو گا۔ اس لئے کہ فنا سے مانع صرف اس کا واجب الوجود ہونا ہے اور زمان و مکان کی پابندی سے وہ واجب الوجود نہ رہا۔
آٹھویں صفت یہ ہے کہ اس کا کوئی مثل و نظیر نہیں ہے۔ اس لئے کہ اگر اس کا مثل و نظیر ہو گا تو یا وہ واجب الوجود ہو گا یا ممکن۔ اگر واجب الوجود ہو گا تو واجب الوجود متعدد نہیں ہو سکتے۔ اور اگر ممکن ہو گا تو ممکن و واجب ایک دوسرے کے مثل ہو نہیں سکتے۔ اس لئے کہ واجب غیر محتاج اور ممکن سراپا احتیاج ہے۔
نویں صفت یہ ہے کہ وہ ایسا خالق ہے جو تخلیقِ اشیاء میں مادہ کا محتاج نہیں ہے، کیونکہ احتیاج ممکن کی شان ہے اور واجب الوجود ہر قسم کی احتیاج سے کوسوں دور ہے۔
دسویں صفت یہ ہے کہ وہ رب ہے۔ رب کے معنی پالنے والے کے ہیں۔ چنانچہ یہ پرورش و نگہداشت کا سر و سامان اور تربیتِ عالم کا مسلسل اہتمام اس کی ربوبیت کا مظہر ہے اور یہ ربوبیت اتنی کامل و ہمہ گیر ہے کہ کوئی مخلوق، وہ پانی کے اندر ہو یا زمین کے اوپر، دامنِ کوہ میں ہو یا وسعتِ فضا میں، اپنی حاجت و ضرورت کے مطابق بقائے زندگی کے سامان سے بہرہ مند ہے جس کا سلسلہ نہ کبھی قطع ہوا ہے اور نہ ہو گا۔
گیارہویں صفت یہ ہے کہ وہ عین حسن و سراپا جمال ہے۔ چنانچہ زمین پر سبزۂ خوابیدہ کا مخملی فرش، پھولوں میں رنگوں کا حسین امتزاج، دریاؤں کی روانی، موجوں کی طغیانی، آبشاروں کے زمزے، طائروں کے نغمے، ستاروں کی چشمک، چاند کا اتار چڑھاؤ، سورج کی ضیاء پاشی، کہکشاں کی دل آویزی اور صبح و شام کی نظر افروزی اسی کے جمال کا پرتو اور اس کے حسن کی جلوہ آرائی کا نتیجہ ہیں۔ کیونکہ جو جمال سے عاری ہو وہ دوسری چیزوں میں رعنائی پیدا نہیں کر سکتا۔ لہٰذا کائنات ہستی کی موزونیت اور فطرت کا بناؤ خالق کے حسن و جمال کا آئینہ دار اور اس کی جمال پسندی کی دلیل ہے۔
بارہویں صفت یہ ہے کہ وہ مومن ہے۔ اگر مومن کا اطلاق انسان پر ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ خدا اور اس کے رسولؐ اور آسمانی احکام کی تصدیق کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ پر اس کا اطلاق ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے ظلم و جور کا قطعاً کوئی اندیشہ نہیں ہے، نہ دنیا میں اور نہ آخرت میں۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:
سُمِّیَ الْبَارِئُ عَزَّ وَ جَلَّ مُؤْمِنًا لِاَنَّهٗ يُؤْمِنُ مِنْ عَذَابَهٗ مَنْ اَطَاعَهٗ.
خداوندِ عالم کا نام ’’مومن‘‘ اس لئے ہے کہ اس کے اطاعت گزار بندے اس کے عذاب سے مامون و بے خطر ہیں۔ [۱]
بہرحال اس دُعا کے مطالعہ سے ایک ایسی ہستی کا تصور سامنے آ جاتا ہے جو تمام حسن و خوبی کی صفتوں کو سمیٹے ہوئے ہے، جو عظمت و جلال و کبریائی کا بھی مالک ہے اور مجد و بزرگی و شرف کا بھی سرمایہ دار ہے، جو سر تا پا نور و ضیاء، سراپا حسن و جمال، ازلی، ابدی، زندہ، قائم، توانا، بے نیاز، باقی و برقرار اور دائم و جاوید ہے۔ اسی سے تمام موجودات کا ظہور ہوا اور اسی سے ان کی بقا وابستہ ہے اور اسی کی طرف پلٹنا ہے۔ وہ یکتا و یگانہ اور بے مثل و بے ہمتا ہے۔ ہر چیز میں نمایاں، ہر دل میں جلوہ گر اور پھر کہیں نہیں کہ اسے دیکھا جا سکے یا اس کی طرف اشارہ کیا جا سکے۔
پایا نہ یوں کہ کرتے اس کی طرف اشارہ
یوں تو جہاں میں ہم نے اس کو کہاں نہ پایا
[٭٭٭٭٭]
[۱]۔ توحید صدوق صفحہ ۲۰۵