4۔ حضرتؑ کی دعا جو ذکر آلِ محمد علیہم السلام پر مشتمل ہے
۴۔ وَ مِنْ دُعَآئِہٖ عَلَیْہِ السَّلَامُ فِیْ ذِکْرِ اٰلِ مُحَمَّدٍ عَلَیْھِمُ السَّلَامُ
حضرتؑ کی دُعا جو ذکر آلِ محمد علیہم السلام پر مشتمل ہے:
اَللّٰهُمَّ یَا مَنْ خَصَّ مُحَمَّدًا وَّ اٰلَهٗ بِالْكَرَامَةِ، وَ حَبَاهُمْ بِالرِّسَالَةِ، وَ خَصَّصَهُمْ بِالْوَسِیْلَةِ، وَ جَعَلَهُمْ وَرَثَةَ الْاَنبِیَآءِ، وَ خَتَمَ بِهِمُ الْاَوْصِیَآءَ وَ الْاَئِمَّةَ، وَ عَلَّمَهُمْ عِلْمَ مَا كَانَ وَ مَا بَقِیَ، وَ جَعَلَ اَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِیْ اِلَیْهِمْ.
اے اللہ! اے وہ جس نے محمدﷺ اور اُن کی آلؑ کو عزت و بزرگی کے ساتھ مخصوص کیا، اور جنہیں منصبِ رسالت عطا کیا، اور وسیلہ بنا کر امتیازِ خاص بخشا، جنہیں انبیاء علیہم السلام کا وارث قرار دیا، اور جن کے ذریعہ اوصیاء اور آئمہ علیہم السلام کا سلسلہ ختم کیا، جنہیں گزشتہ و آئندہ کا علم سکھایا، اور لوگوں کے دلوں کو جن کی طرف مائل کیا۔
فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهِ الطَّاهِرِیْنَ، وَ افْعَلْ بِنَا مَاۤ اَنْتَ اَهْلُهٗ فِی الدّیْنِ وَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ، اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ.
بار الٰہا! محمدﷺ اور اُن کی پاک و پاکیزہ آلؑ پر رحمت نازل فرما اور ہمارے ساتھ دین، دنیا اور آخرت میں وہ برتاؤ کر جس کا تو سزاوار ہے، یقیناً تو ہر چیز پر قادر و توانا ہے۔
–٭٭–
یہ دُعا آنحضرت ﷺ اور ان کے اہل بیت اطہار علیہ السلام کے اوصاف و خصوصیات کے ذکر پر مشتمل ہے۔ ان اوصاف و محامد میں سے:
پہلی صفت یہ ہے کہ خداوند عالم نے انہیں ایسی عزت و رفعت اور شرف و کرامت کے خلعت سے آراستہ کیا ہے جو دنیا میں کسی اور کے قد و قامت پر راست نہ آسکا۔ یہ اختصاص اس امر کی دلیل ہے کہ خداوند عالم نے محمد ﷺ اور ان کے اہل بیت علیہ السلام کو تمام کائنات پر فضیلت و برتری عطا کی ہے۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:
اِنَّ اللّٰهَ خَلَقَ الْاَرْوَاحَ قَبْلَ الْاَجْسَادِ بِاَلْفَیْ عَامٍ،فَجَعَلَ اَعْلَاهَا وَ اَشْرَفَهَا اَرْوَاحَ مُحَمَّدٍ وَ عَلِیٍّ وَ فَاطِمَةَ وَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ وَ الْاَئِمَّةِ بَعْدَهُمْ صَلَوَاتُ اللّٰهِ عَلَيْهِمْ.
خداوند عالم نے روحوں کو جسموں سے دو ہزار برس پیشتر خلق فرمایا اور ان میں سب سے بلند مرتبہ و ذی شرف محمدؐ، علیؑ، فاطمہؑ، حسنؑ، حسینؑ اور آئمہ اہل بیت صلوات اللہ علیہم ہیں۔ [۱۴]
دوسری صفت یہ ہے کہ ان میں سے حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو مرکز نبوت قرار دیا اور وحی و رسالت کا امتیاز بخشا۔ چنانچہ آنحضرتؐ کا ارشاد ہے:
نَحْنُ اَھْلُ الْبَیْتِ مَفَاتِیْحُ الرَّحْمَۃِ وَ مَوْضِعُ الرِّسَالَۃِ وَ مَعْدِنُ الْحِلْمِ.
ہم اہل بیتؑ، رحمت کی کنجیاں، رسالت کی منزل اور حلم و بردباری کا معدن ہیں۔ (ارجح المطالب)
تیسری صفت یہ ہے کہ وہ وسیلہ ہیں۔ اس طرح کہ انہی کے وسیلہ سے خدا تک رسائی ہوتی ہے، انہی کے وسیلہ سے دُعائیں قبول اور فقر و فاقہ، ابتلاء و مصیبت اور رنج و اندوہ دور ہوتا ہے۔ اور عقبی میں بھی ان کی شفاعت کو وسیلہ قرار دیئے بغیر نجات و کامرانی نہ ہو گی۔ اور یہ وہ مرتبہ رفیعہ ہے جس سے بلند تر مرتبہ دوسرا نہیں ہے۔ چنانچہ امیرالمومنین علیہ السلام کا ارشاد ہے:
اِنَّ اللّٰهَ وَعَدَ نَبِیَّہُ الْوَسِیْلَۃَ وَھِیَ اَعْلٰی دَرَجِ الْجَنَّۃِ وَ نِہَایَۃُ غَایَۃِ الْاُمْنِیَّۃِ۔
اللہ سبحانہ نے اپنے نبیؐ سے وسیلہ کا وعدہ فرمایا ہے اور یہ جنت کا ایک بلند ترین درجہ اور خواہش و مقصد کی حد آخر ہے۔ [۱۵]
چوتھی صفت یہ ہے کہ ان میں تمام انبیاء علیہ السلام کی صفتیں یکجا تھیں۔ چنانچہ آدمؑ کی صفوت، ابراہیمؑ کی خلت، موسیؑ کی ہیبت، عیسیٰؑ کی زہادت اور دوسرے انبیاء علیہم السلام کی صفتیں ان میں سمٹ کر جمع ہو گئی تھیں۔ اس لحاظ سے وہ انبیاء علیہم السلام کے محاسن و کمالات اور اخلاق و اوصاف میں ان کے وارث و جانشین ہوں گے۔ چنانچہ امام رضا علیہ السلام کا ارشاد ہے:
نَحْنُ وَرَثَةُ اُولِی الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ- وَ الْاَنْۢبِیَآءِ.
ہم اولوالعزم نبیوں اور رسولوں کے ورثہ دار ہیں۔ [۱۶]
پانچویں صفت یہ ہے کہ جس طرح پیغمبر اکرم ﷺ خاتم الانبیاء ہیں کہ ان کے ذریعہ سلسلہ نبوت اِتمام تک پہنچایا گیا، اسی طرح ان کے اہل بیت کے ذریعہ ائمہ و اوصیاء علیہ السلام کا سلسلہ ختم کیا گیا ہے۔ کیونکہ نہ نبی آخر الزمان کے بعد کوئی نبی آئے گا اور نہ ان کا کوئی وصی و وارث ہو گا، لہٰذا جس طرح ہمارے پیغمبر آخری پیغمبر ہیں اسی طرح ان کے اوصیا آخری اوصیا ہیں اور وہ آئمہ اثنا عشر ہیں۔ چنانچہ علامہ شیخ قندوزی تحریر فرماتے ہیں:
اَخْبِرْنِیْ یَا رَسُوْلَ اللّٰهِ عَنْ اَوْصِیَآءِكَ مِنْ بَعْدِكَ لِاَ تَمَسَّكَ بِہِمْ؟ قَالَ: اَوْصِیَاۤئِی الْاِثْنَا عَشَرَ.
راوی کہتا ہے کہ: میں نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ: مجھے بعد میں آنے والے اپنے اوصیاءؑ سے مطلع فرمائیے تا کہ میں ان سے تمسک اختیار کروں۔ آپؐ نے فرمایا کہ: میرے اوصیاء بارہ ہیں (اور اس کے بعد سب کا نام بنام ذکر فرمایا ہے)۔(ینابیع المودۃ)
چھٹی صفت یہ ہے کہ انہیں گزشتہ و آئندہ واقعات کا علم دیا گیا ہے۔ یہ علم، عطیہ الٰہی اور اس سرچشمہ علم سے حاصل کیا ہوا ہے جو ازلی و سرمدی اور غیر محدود ہے، جس کے بعد علم الٰہی میں شریک ہونے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کا علم عین ذات اور غیر مکتسب ہے اور یہ القا و الہام یا پیغمبر کی وساطت سے حاصل ہوا ہے اور انتہائی وسعت و پہنائی کے باوجود محدود ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں جہاں جہاں علم غیب کو ذات الٰہی سے مخصوص کیا گیا ہے اور دوسروں سے اس کی نفی کی گئی ہے، اس سے ذاتی علم مراد ہے، لیکن وہ علم جو مستقبل کے بارے میں یا امور مخفیہ پر قدرت کی طرف سے خاص خاص بندوں کو حاصل ہوتا ہے اس کی کہیں نفی نہیں ہے اور آئمہ علیہ السلام کا علم اسی نوعیت کا ہے اور ان کے ارشادات میں اس کی پوری پوری وضاحت ہے جس کے بعد کسی شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ چنانچہ ایک شخص نے امیرالمومنین علی ابن ابی طالبؑ سے کہا کہ:لَقَدْ اُعْطِيْتَ يَا اَمِيْرَ الْمُؤْمِنِيْنَ عِلْمَ الْغَيْب؟ : اے امیرالمؤمنینؑ! آپ کو علم غیب حاصل ہے؟ آپ نے فرمایا:
لَيْسَ هُوَ بِعِلْمِ غَيْبٍ وَ اِنَّمَا هُوَ تَعَلُّمٌ مِّنْ ذِیْ عِلْمٍ.
یہ علم غیب نہیں، بلکہ ایک صاحب علم (رسولؐ) سے معلوم کی ہوئی باتیں ہیں۔ (نہج البلاغہ، خطبہ نمبر۱۲۶)
یونہی یحیی ابن عبد اللہ نے امام موسی کاظم علیہ السلام سے کہا کہ: جُعِلْتُ فِدَاكَ! اِنَّهُمْ يَزْعُمُوْنَ اَنَّكَ تَعْلَمُ الْغَيْبَ؟: میں آپ پر قربان جاؤں! لوگوں کا خیال ہے کہ آپؑ علم غیب جانتے ہیں؟ حضرتؑ نے یہ سن کر فرمایا:
سُبْحَانَ اللّٰهِ! ضَعْ يَدَكَ عَلٰى رَاْسِیْ، فَوَ اللّٰهِ مَا بَقِيَتْ شَعْرَةٌ فِيْهِ وَ لَا فِیْ جَسَدِیْ اِلَّا قَامَتْ، ثُمَّ قَالَ لَا وَ اللّٰهِ مَا هِیَ اِلَّا وِرَاثَةٌ عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰهِﷺ.
اللہ اکبر! ذرا اپنا ہاتھ میرے سر پر رکھ کر دیکھو! خدا کی قسم! میرے سر کے بال اور میرے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو گئے ہیں۔ (پھر فرمایا) یہ صرف وہ علم ہے جو ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے وراثتا حاصل ہوا ہے۔ (امالی شیخ مفید، ص۲۳)
ساتویں صفت یہ ہے کہ وہ لوگوں کی محبت و اِرادت کا مرکز ہیں۔ یہ اس لئے کہ انسان فطرۃ ًان افراد کی طرف جھکتا ہے جو کسی کمال کے حامل ہوتے ہیں۔ چنانچہ حاتم کی سخاوت، نوشیرواں کی عدالت اور رستم کی شجاعت دلوں کو ان کی طرف جھکا دیتی اور نظروں کو ان کی جانب موڑ دیتی ہے اور آل محمد علیہ السلام تو وہ ہیں جو اپنے ذاتی کمالات و خصوصیات کی وجہ سے عظمت انسانی کا معیار ہیں۔وہ کون سا جو ہر فضیلت ہے جس سے ان کا دامن آراستہ نہ ہو؟ اور وہ کون سی صفتِ خوبی و کمال ہے جو ان کے جوہر ذاتی میں جلوہ گر نہ ہو؟۔ لہٰذا ان کمالات و خصوصیات کو دیکھتے ہوئے نگاہیں ان کی طرف جھکیں گی اور دل عقیدت کے جلو میں بڑھیں گے۔ چنانچہ زندیق و ملحد اور دین و ملت سے نا آشنا افراد بھی عقیدت کے پھول ان کے قدموں پر نچھاور کرتے اور دشمن بھی لاشعوری طور پر ان کی عظمت کا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں۔ اور یہ دلوں کا جھکاؤ، اس دُعا کا بھی نتیجہ ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی ذریت کے بارے میں کی تھی کہ:
﴿رَبَّنَآ اِنِّىْٓ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ بِوَادٍ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ۰ۙ رَبَّنَا لِيُقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ فَاجْعَلْ اَفْىِٕدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہْوِيْٓ اِلَيْہِمْ﴾
اے ہمارے پروردگار! میں نے ایک ویران بستی میں تیرے محترم گھر کے پاس اپنی کچھ اولاد کو لا بسایا ہے، تا کہ اے ہمارے پروردگار وہ نماز پڑھا کریں، تُو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے۔ [۱۷]
[٭٭٭٭٭]
[۱]۔ بحارالانوار، ج ۸، ص ۳۰۸
[۲]۔ شرح اصول الکافی، صالح مازندرانی، جلد ۱۱، ص ۲۳۹
[۳]۔ البرہان فی تفسیر القرآن، جلد 4۴، ص ۸۱۱
[۴]۔ سورہ ابراہیم، آیت ۳۷