صحیفہ کاملہ

5- حضرت آدم علیہ السلام پر درود و صلوات کے سلسلہ میں حضرتؑ کی دعا

۵۔ وَ کَانَ مِنْ دُعَآئِہٖ عَلَیْہِ السَّلَامُ فِی الصَّلٰوۃِ عَلٰی اٰدَمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ

حضرت آدم علیہ السلام پر درود و صلوات کے سلسلہ میں حضرتؑ کی دُعا:

اَللّٰهُمَّ وَ اٰدَمُ بَدِیْعُ فِطْرَتِكَ، وَ اَوَّلُ مُعْتَرِفٍ مِّنَ الطِّیْنِ بِرُبُوْبِیَّتِكَ، وَ بَدْوُ حُجَّتِكَ عَلٰى عِبَادِكَ وَ بَرِیَّتِكَ، وَ الدَّلِیْلُ عَلَى الْاِسْتِجَارَةِ بِعَفْوِكَ مِنْ عُقُوْبَتِكَ، وَ النَّاهِجُ سُبُلَ تَوْبَتِكَ، وَ الْمُوَسَّلُ بَیْنَ الْخَلْقِ وَ بَیْنَ مَعْرِفَتِكَ.

بار الٰہا! وہ آدمؑ جو تیری آفرینش کے نقش بدیع، اور خاک سے پیدا ہونے والوں میں تیری ربوبیت کے پہلے معترف، اور تیرے بندوں اور تیری مخلوقات پر تیری پہلی حجت، اور تیرے عذاب سے تیرے دامن عفو میں پناہ مانگنے کی راہ دکھانے والے، اور تیری بارگاہ میں توبہ کی راہیں آشکارا کرنے والے، اور تیری معرفت اور تیرے مخلوقات کے درمیان وسیلہ بننے والے ہیں۔

وَالَّذِیْ لَقَّنْتَهٗ مَا رَضَیْتَ بِهٖ عَنْهُ، بِمَنِّكَ عَلَیْهِ وَ رَحْمَتِكَ، وَالْمُنِیْبُ الَّذِیْ لَمْ یُصِرَّ عَلٰى مَعْصِیَتِكَ، وَ سَآبِقُ الْمُتَذَلِّلِیْنَ بِحَلْقِ رَاْسِهٖ فِیْ حَرَمِكَ، وَ الْمُتَوَسِّلُ بَعْدَ الْمَعْصِیَةِ بِالطَّاعَةِ اِلٰى عَفْوِكَ، وَ اَبُو الْاَنبِیَآءِ الَّذِیْنَ اُوْذُوْا فِیْ جَنبِكَ، وَ اَكْثَرُ سُكَّانِ الْاَرْضِ سَعْیًا فِیْ طَاعَتِكَ.

وہ کہ جن پر خصوصی کرم و احسان اور مہربانی کرتے ہوئے انہیں وہ تمام باتیں بتلا دیں جن کے ذریعے تُو ان سے راضی و خوشنود ہوا، وہ کہ جو توبہ و انابت کرنے والے ہیں، جنہوں نے تیری معصیت پر اصرار نہیں کیا، جو تیرے حرم میں سر منڈوا کر عجز و فروتنی کرنے والوں میں سابق ہیں، وہ جو مخالفت کے بعد اطاعت کے وسیلہ سے تیرے عفو و کرم کے خواہشمند ہوئے، اور اُن تمام انبیاء علیہ السلام کے باپ ہیں جنہوں نے تیری راہ میں اذیتیں اٹھائیں، اور زمین پر بسنے والوں میں سب سے زیادہ تیری اطاعت و بندگی میں سعی و کوشش کرنے والے ہیں۔

فَصَلِّ عَلَیْهِ اَنْتَ یَا رَحْمٰنُ، وَ مَلٰٓئِكَتُكَ وَ سُكَّانُ سَمٰوٰتِكَ وَ اَرْضِكَ، كَما عَظَّمَ حُرُمَاتِكَ، وَ دَلَّنَا عَلٰى سَبِیْلِ مَرْضَاتِكَ، یَاۤ اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ.

ان پر اے مہربانی کرنے والے تو اپنی جانب سے، اور اپنے فرشتوں اور زمین و آسمان میں بسنے والوں کی طرف سے، رحمت نازل فرما، جس طرح انہوں نے تیری قابلِ احترام چیزوں کی عظمت ملحوظ رکھی، اور تیری خوشنودی و رضامندی کی طرف ہماری رہنمائی کی، اے تمام رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔

–٭٭–

آسمان کا نیلگون شامیانہ ستاروں کی قندیلوں سے آراستہ تھا، آفتاب و ماہتاب کی آمد و شد سے بہار افروز صبحوں اور کیف افزا شاموں کا سلسلہ بھی جاری تھا، مگر فطرت کی اس رنگینی و رعنائی سے لطف اندوز ہونے والی آنکھیں ہنوز محو خواب تھیں۔ دریاؤں کی تہہ میں موتی اور پہاڑوں کے دامن میں لعل و جواہر بکھرے ہوئے تھے، مگر انہیں آویزۂ تاج بنانے والی کوئی ہستی نہ تھی۔ اجزائے ارضی میں قوت نامیہ تڑپ رہی تھی، مگر کوئی نہ تھا جو اس سے فائدہ اٹھا کر زمین کو چمن و لالہ زار میں تبدیل کرتا کہ قدرت نے خرابہ عالم کو بسانے اور ظلمت کدہ دہر میں اجالا کرنے کیلئے تخلیق آدمؑ کی طرح ڈالی۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:

﴿ اِنِّىْ خَالِقٌ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ۝۲۸﴾

میں خمیر کی ہوئی مٹی سے جو (سوکھ کر) کھنکھنانے لگے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں [۱]

جب صناع ازل نے مٹی کا پتلا بنایا اور اس کی نوک پلک درست کرنے کے بعد اس میں روح پھونکی تو زندگی کے خد و خال نکھر آئے، حس و شعور کی دنیا آباد ہو گئی اور خدا کے آگے جھکنے والی پیشانیاں آدم علیہ السلام کے سامنے سجدۂ تعظیمی کیلئے جھک گئیں۔ آدم علیہ السلام نے آغوش حیات میں کروٹ بدلتے ہی زبان سے «اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ« کہہ کر اپنے خالق و پروردگار کی ربوبیت کا اعتراف کیا۔ حضرتؑ نے مٹی سے خلق ہونے والوں میں انہیں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا پہلا معترف اسی بنا پر فرمایا ہے۔ یوں تو اس کی ربوبیت و خالقیت کے اول معترف وہ تھے جو اولین مخلوق تھے اور اس وقت جبکہ آدمؑ کے وجود کی بنیاد بھی نہ رکھی گئی تھی، ان کی تسبیح و تقدیس کی آوازوں سے ملکوتی فضا گونج رہی تھی۔ چنانچہ پیغمبر اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:

کُنْتُ نَبِیًّا وَّ اٰدَمُ بَیْنَ الْمَآءِ وَ الطِّیْنِ.

میں اس وقت بھی نبی تھا جبکہ آدمؑ آب و گل کے پردہ میں نہاں تھے۔ [۲]

بہرحال جب آدم علیہ السلام کی تخلیق مکمل ہو گئی تو قدرت نے کچھ عرصہ کیلئے جنت کی بہار آفرین فضاؤں میں انہیں ٹھہرایا تا کہ اپنی جائے باز گشت کو دیکھ لیں اور دنیا کی رنگینیوں میں اس کی یاد باقی رہے۔ آدم علیہ السلام اس سکون پرور فضا میں راحت و آرام سے ہم کنار تھے اور عیش و نعمت میں زندگی کے دن بسر کر رہے تھے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں جنت کی ہر نعمت سے بہرہ مند ہونے کی اجازت دے رکھی تھی، مگر ایک خاص درخت کے پھل سے یہ کہہ کر روک دیا تھا کہ: ﴿وَلَا تَقْرَبَا ہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ﴾ [۲]: ’’تم دونوں اس درخت کے نزدیک بھی نہ جانا‘‘، مگر شیطان جو حضرت آدم علیہ السلام کی طرف سے اپنے دل میں کینہ و عناد رکھتا تھا، ان سے کہنے لگا کہ: ﴿ يٰٓاٰدَمُ ہَلْ اَدُلُّكَ عَلٰي شَجَرَۃِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَّا يَبْلٰى۝۱۲۰﴾: ’’اے آدمؑ! کیا میں تمہیں ہمیشگی کے درخت اور ایسی بادشاہی کا پتہ دوں جو ناقابل زوال ہے‘‘؟[۳]۔ آدم علیہ السلام درخت خلد اور دائمی تقرب کے حصول کیلئے اس کے بہکانے میں آگئے اور اس درخت کا پھل کھا لیا جس کے نتیجہ میں قدرت کی طرف سے عتاب کے آثار ظاہر ہوئے۔ جنت کی فضا اجنبی سی نظر آنے لگی، جسم سے لباس تک جدا ہو گیا۔ آدم علیہ السلام یہ دیکھ کر گھبرائے، اپنے کئے پر نادم و پشیمان ہوئے اور اللہ سے سیکھے ہوئے کلمات کا واسطہ دے کر اس کے حضور گڑگڑائے، توبہ و انابت کا ہاتھ پھیلایا۔ آخر اللہ نے ان کی توبہ کو قبول فرمایا۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:

﴿فَتَلَقّٰٓي اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَيْہِ اِنَّہٗ ھُوَالتَّوَّابُ الرَّحِيْمُ۝۳۷﴾

آدمؑ نے اپنے پروردگار سے کچھ کلمے سیکھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ کو قبول فرمایا اور وہ توبہ قبول کرنے والا بڑا مہربان ہے۔ [۴]

توبہ قبول فرمانے کے بعد انہیں جہاں کیلئے خلق فرمایا تھا وہاں پر اتر جانے کا حکم دیا اور زمین کو ان کیلئے جائے قرار و جائے انتفاع قرار دیا۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:

﴿وَلَكُمْ فِى الْاَرْضِ مُّسْـتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰى حِيْنٍ۝۳۶﴾

تمہارے لئے زمین میں ٹھہراؤ اور ایک وقت مقرر تک فائدہ اٹھانا ہے۔ [۵]

حضرت آدم علیہ السلام کے واقعہ میں قرآنی تعبیرات کچھ اس قسم کے ہیں جن سے ان کا گنہگار ہونا ظاہر ہوتا ہے۔ حالانکہ انبیاء علیہم السلام کا غرضِ بعثت کے پیش نظر معصوم ہونا ضروری ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں:

پہلا شبہ یہ ہوتا ہے کہ انہیں عاصی کہا گیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے: ﴿وَعَصٰٓى اٰدَمُ رَبَّہٗ﴾ [۶]: ’’آدم علیہ السلام نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی‘‘، اور عصیان و نافرمانی کا لازمی نتیجہ دوزخ ہے۔ جیسا کہ قدرت کا ارشاد ہے: ﴿وَمَنْ يَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَاِنَّ لَہٗ نَارَ جَہَنَّمَ﴾ [۷]: ’’جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے اس کیلئے یقینا دوزخ کی آگ ہے‘‘، لہٰذا جب آدم علیہ السلام عصیان کے نتیجہ میں دوزخ کے مستحق قرار پائے تو ان کی عصمت کہاں باقی رہ سکتی ہے؟ کیونکہ ہر وہ فعل جس کی سزا جہنم ہو وہ یقینا گناہ اور عصمت کی منافی ہوتا ہے۔

دوسرا شبہ یہ ہے کہ انہیں گمراہ اور ہدایت سے منحرف قرار دیا گیا ہے جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے: ﴿فَغَوٰى۝۱۲۱۠ۖ﴾ [۸]: ’’وہ گمراہ ہو گئے‘‘۔ غوایت کے معنی گمراہی کے ہیں۔ چنانچہ خداوند عالم نے رشد (ہدایت) کے مقابلہ میں اسے بیان کیا ہے۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے: ﴿قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ۝۰ۚ﴾ [۹]: ’’ہدایت گمراہی سے الگ ہو کر ظاہر ہو چکی‘‘۔

تیسرا شبہ یہ ہے کہ انہیں درخت کے قریب جانے کے بعد توبہ کی احتیاج ہوئی اور توبہ کسی امر ناپسندیدہ ہی کے نتیجہ میں ہو سکتی ہے۔ چنانچہ خداوند عالم نے ان کی توبہ کا ذکر قبولیتِ توبہ کے ضمن میں اس طرح کیا ہے کہ: ﴿فَتَابَ عَلَيْہِ اِنَّہٗ ھُوَالتَّوَّابُ الرَّحِيْمُ۝۳﴾ [۱۰]: ’’اللہ نے ان کی توبہ قبول کر لی۔ وہ یقیناً بہت توبہ قبول کرنے والا بڑا مہربان ہے‘‘۔

چوتھا شبہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک ایسے فعل کا ارتکاب کیا جس سے انہیں روکا گیا تھا۔ چنانچہ قدرت کا ارشاد ہے: ﴿اَلَمْ اَنْہَكُمَا عَنْ تِلْكُمَا الشَّجَرَۃِ﴾ [۱۱]: ’’کیا میں نے تمہیں اس درخت سے نہیں روکا تھا‘‘، اور منہی عنہ کے ارتکاب ہی کا نام گناہ ہے۔

پانچواں شبہ یہ ہے کہ وہ درخت کے پاس جانے کے نتیجہ میں ظالم ٹھہرے۔ جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے: ﴿وَلَا تَقْرَبَا ہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِـمِيْنَ۝۱۹﴾ [۱۲]: ’’اس درخت کے نزدیک نہ جانا۔ ورنہ ظلم کرنے والوں میں سے ہو گے‘‘، اور ظلم خواہ کسی نوعیت کا ہو عصمت کے منافی ہے۔

چھٹا شبہ یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے خود اپنے نقصان رسیدہ ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ان کی زبانی ارشاد ہے: ﴿وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ۝۲۳﴾ [۱۳]: ’’اگر تو ہمیں معاف نہیں کرے گا اور ہم پر رحم نہیں کھائے گا تو ہم بلا شبہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوں گے‘‘، اور نقصان کا ترتب گناہ ہی پر ہو سکتا ہے۔

ساتواں شبہ یہ ہے کہ وہ شیطان کے بہکانے میں آگئے جس کے بعد انہیں جنت سے نکلنا پڑا۔ جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے:﴿فَاَزَلَّہُمَا الشَّيْطٰنُ عَنْہَا فَاَخْرَجَہُمَا مِـمَّا كَانَا فِيْہِ۝۰۠﴾ [۱۴]: ’’شیطان نے ان کو وہاں سے ڈگمگایا تو انہیں اس حالت سے جس میں تھے نکلوا دیا‘‘، اور جو لغزش شیطان ملعون کے بہکانے کا نتیجہ ہو وہ بہرحال عصمت سے سازگار نہیں ہو سکتی۔

پہلے شبہ کا جواب یہ ہے کہ:

’’عصیان‘‘ کے معنی امر الٰہی کی مخالفت کے ہیں۔ خواہ وہ امر بطور وجوب ہو خواہ بطور ندب و استحباب۔ اگر امر واجبی کی مخالفت ہو تو وہ گناہ ہے جس پر سزا مرتب ہوتی ہے اور اگر ندبی و استحبابی ہو تو اس کی مخالفت کو گناہ نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اسی طرح امر اِرشادی کی مخالفت بھی گناہ نہیں ہے، اگرچہ امر ندبی و استحبابی کی مخالفت کو بھی عصیان سے تعبیر کیا جاتا ہے اور امر ارشادی کی مخالفت پر بھی عصیان کا اطلاق ہوتا ہے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ: «اَمَرْتُہٗ بِشُرْبِ الدَّوَاءِ فَعَصَانِیْ«: میں نے اسے دوا کے پینے کا حکم دیا مگر اس نے میری نافرمانی کی۔ اسی طرح ابن المنذر نے یزید ابن مہلب امیر خراسان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:

اَمَرْتُكَ اَمْرًا جَازِمًا فَعَصَيْتَنِیْ

فَاَصْبَحْتَ مُسْلُوْبَ الْاِمَارَةِ نَادِمًا

’’میں نے تمہیں ایک پختہ اور سوچی سمجھی ہوئی رائے دی مگر تم نے میری نافرمانی کی جس کے نتیجہ میں تمہیں امارت سے محروم اور شرمسار ہونا پڑا‘‘۔

ان دونوں مثالوں میں امر، امر ارشادی ہے جس کی حیثیت صرف ایک مشورہ و رائے کی ہوتی ہے، جس میں مخاطب ہی کا مفاذ ملحوظ ہوتا ہے اور اس کی خلاف ورزی پر قہراً کچھ مفاسد مرتب ہوتے ہیں۔ جیسے کسی کو سنکھیا سے پرہیز کرنے کا مشورہ دیا جائے تا کہ وہ ہلاکت و تباہی سے دو چار نہ ہو۔ اسی طرح حضرت آدم علیہ السلامکو درخت کا پھل کھانے سے منع کیا گیا، تا کہ وہ ان مضرتوں سے بچے رہیں جو اس کھانے کا قہری نتیجہ تھیں۔ چنانچہ خداوند عالم نے حضرت آدم علیہ السلام کو جب درخت کے پاس جانے سے منع کیا تو اس کے مفاسد سے بھی آگاہ کر دیا۔ اس طرح کہ انہیں شیطان ملعون کی دشمنی سے متنبہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

﴿فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّۃِ فَتَشْقٰي۝۱۱۷ اِنَّ لَكَ اَلَّا تَجُوْعَ فِيْہَا وَلَا تَعْرٰى۝۱۱۸ۙ وَاَنَّكَ لَا تَظْمَؤُا فِيْہَا وَلَا تَضْحٰي۝۱۱۹﴾

ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں جنت سے نکال باہر کرے کہ تم بد بختی مول لو۔ بیشک تمہارے لئے یہاں یہ سامان ہے کہ تم یہاں نہ بھوکے ہو گے نہ برہنہ اور نہ پیاس اور دھوپ سے سابقہ پڑے گا۔ [۱۵]

اگر یہ اس قسم کی نہی ہوتی جس کی مخالفت گناہ قرار پاتی ہے تو بھوک، پیاس اور عریانی و تپش کے بجائے اللہ تعالیٰ اپنے غضب و انتقام کا ذکر کرتا۔ لیکن یہ کچھ نہیں ہے، جس سے یہ ظاہر ہے کہ اس نہی کی حیثیت صرف نہی ارشادی کی تھی جس کی خلاف ورزی گناہ نہیں ہے، مگر آدم علیہ السلام کی رفعت و بلند پائیگی کی بنا پر اسے عصیان سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور یہ عصیان کی نسبت صرف حضرت آدم علیہ السلام کی طرف دی گئی ہے، حالانکہ حضرت حوا(س)بھی نہی میں شریک تھیں اور کھانے میں بھی شریک اور جنت سے نکلنے میں بھی شریک رہیں، مگر ہر منزل پر شریک ہونے کے باوجود ان کی طرف عصیان کی نسبت نہیں ہے۔ اگر یہ نہی حرمت کی بنا پر ہوتی تو حوا سلام اللہ علیہا کو الگ نہ کیا جاتا اور وہ اس عصیان میں بھی شریک قرار پاتیں۔

یہ اس امر کی دلیل ہے کہ یہ صرف ترک اَولیٰ تھا جو نبوت کی وجہ سے عصیان کہلایا۔ اور ’’ترک اَولیٰ‘‘ وہی ہے جو بعض کے اعتبار سے قابل مؤاخذہ اور بعض کے اعتبار سے قابل مؤاخذہ نہ ہو۔ اس لئے شریک نہی ہونے کے باوجود حوا(س)کی خلاف ورزی کو عصیان نہیں کہا گیا۔

دوسرے شبہ کا جواب یہ ہے کہ ’’غوایت‘‘ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انسان کسی مقصد کو حاصل کرنا چاہے اور صحیح طریق کا راختیار نہ کرنے کی وجہ سے اپنے مقصد میں ناکام رہے۔ چنانچہ ایک شاعر کا قول ہے:

فَمَنْ يَّلْقَ خَيْرًا يَّحْمَدِ النَّاسَ اَمْرَهٗ

وَ مَنْ يَّغْوِ لَا يَعْدَمْ عَلَى الْغَیِّ لَائِمًا

’’جو اپنے مقصد کو پا لیتا ہے لوگ اس کی مدح و ستائش کرتے ہیں اور جو ناکام رہتا ہے اسے اس ناکامی پر ملامت کرنے والا بھی ملتا ہے‘‘۔

چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام کا اصل مقصد تقرب الٰہی تھا جس کا وسیلہ انہوں نے درخت کے پھل کو قرار دیا۔ چنانچہ شیطان نے ان سے کہا کہ:

﴿مَا نَہٰىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَيْنِ اَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِيْنَ۝۲۰﴾

تمہارے پروردگار نے تم دونوں کو درخت (کا پھل کھانے) سے صرف اس لئے منع کیا ہے کہ مبادا تم دونوں فرشتے بن جاؤ یا ہمیشہ ہمیشہ یہیں رہ جاؤ۔ [۱۶]

چونکہ مقصد حضرت آدمؑ کا حصول تقرب تھا نہ لذت اندوزی و شکم پروری، اس لئے بلحاظ مقصد تو پھل کھانے کو گناہ نہیں کہا جا سکتا، لیکن حصول تقرب کا جو اسے وسیلہ قرار دینا چاہا وہ وسیلہ ثابت نہ ہو سکا جس کے نتیجہ میں وہ محروم و ناکام رہے اور اسی محرومی و ناکامی کو ’’غوایت‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔

تیسرے شبہ کا جواب یہ ہے کہ بیشک حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے فعل پر نادم ہوتے ہوئے توبہ کی، لیکن توبہ کیلئے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ کسی گناہ ہی کے نتیجہ میں ہو، کیونکہ ’’توبہ‘‘ کا مطلب اپنے کسی فعل یا ترک پر نادم ہونا ہے اور یہ ندامت استحبابی و ندبی امر کے ترک پر بھی ہو سکتی ہے۔ اور خاصان خدا اپنے مقام و منزلت کے پیش نظر امر مندوب کے ترک اور فعل مکروہ کے ارتکاب پر نادم و پشیمان ہوتے اور اسے گناہ تصور کرتے ہوئے اس سے توبہ کرتے ہیں۔

چوتھے شبہ کا جواب یہ ہے کہ ہر منہی عنہ کا ارتکاب گناہ نہیں ہے۔ کیونکہ نہی کی دو قسمیں ہیں: ایک تحریمی اور دوسرے تنزیہی۔ ’’نہی تحریمی‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اس کی خلاف ورزی گناہ ہو اور اس پر سزا و عقوبت صحیح ہو۔ اور ’’نہی تنزیہی‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اس سے کنارہ کشی پسندیدہ ہو، مگر اس کے ارتکاب پر سزا و عذاب نہ ہو۔ اس مقام پر نہی، نہی تحریمی نہیں ہے ۔اس لئے کہ اگر یہ نہی تحریمی ہوتی تو اس پر حضرت آدم علیہ السلام سزا کے مستحق ہوتے۔ اور انبیاء علیہم السلام کی شان اس سے کہیں بلند تر ہے کہ ان کیلئے سزا و عقوبت کو تجویز کیا جا سکے۔ اور پھر یہ کہ نہی تحریمی ایک تکلیف شرعی کی حیثیت رکھتی ہے اور جنت مقام عمل نہیں ہے جہاں ان پر امر و نہی کے ذریعہ کوئی تکلیف عائد ہوتی۔ لہٰذا جنت کے دار الجزاء ہونے کے لحاظ سے اس نہی کو نہی تنزیہی قرار دیا جائے گا جس کی خلاف ورزی ترک اَولیٰ شمار ہوتی ہے، نہ گناہ و معصیت۔ البتہ اس ترک اَولیٰ کا طبعی نتیجہ اس طرح ظاہر ہوا کہ ان کے بدن سے لباس اتروا لیا گیا اور جنت سے اتار دیئے گئے اور اسے سزا سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ وہ اسی زمین کو آباد کرنے کیلئے پیدا کئے گئے تھے۔ ممکن ہے کہ جنت میں ان کے قیام کی مدت کچھ اور طویل ہو جاتی کہ ترک اَولیٰ کے باعث حکمت الٰہی اس کی مقتضی ہوئی کہ انہیں مقصد تخلیق کی تکمیل کیلئے جلد زمین پر اتار دیا جائے اور یہ ترک اَولیٰ زمین کی آباد کاری کا ذریعہ قرار پا گیا۔ چنانچہ حدیث قدسی میں وارد ہوا ہے کہ:

اِنِّیْ جَعَلْتُ مَعْصِيَةَ اٰدَمَ سَبَبًا لِّعِمَارَةِ الْعَالَمِ‏.

میں نے آدم علیہ السلام کی معصیت کو دنیا کی آبادی کا سبب قرار دیا۔ [۱۷]

پانچویں شبہ کا جواب یہ ہے کہ ظلم کے معنی حدودِ الٰہیہ کو نظر انداز کرنے کے ہیں۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:

﴿وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللہِ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ۝۲۲۹﴾

جو لوگ اللہ تعالیٰ کی قائم کی ہوئی حدوں سے تجاوز کرتے ہیں وہی لوگ ظالم ہیں۔ [۱۸]

اور یہ حدود کبھی بطور وجوب و الزام ہوتے ہیں اور کبھی بطور استحباب و ندب۔ اگر حد کی پابندی بطور وجوب ہو تو اس سے متجاوز ہونا گناہ قرار پائے گا اور اگر بطور ندب و استحباب ہو تو اس سے متجاوز ہونا ترک اَولیٰ ہو گا اور ترک اَولیٰ عصمت کے منافی نہیں ہے۔

چھٹے شبہ کا جواب یہ ہے کہ ’’خسران‘‘ کے معنی کسی منفعت سے محرومی کے ہیں اور منفعت سے محرومی اور چیز ہے اور گناہ اور چیز ہے۔ چنانچہ مستحب امور کو ترک کرنا گناہ نہیں ہے مگر خسران یعنی ثواب سے محرومی اس میں بھی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے ترک اَولیٰ کے ارتکاب سے ان فائدوں اور منفعتوں کو کھو دیا جو انہیں حاصل تھیں اور یہی نقصان و خسران ہے۔

ساتویں شبہ کا جواب یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کا جنت سے نکلنا اور زمین پر اترنا سزا بھگتنے کیلئے نہ تھا اس لئے کہ آدم علیہ السلام تو پیدا ہی خلافت ارضی کیلئے ہوئے تھے اور اپنے قلمرو مملکت میں آنا سزا متصور نہیں ہو سکتا۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر آدمؑ کیلئے جنت دار العمل اور دنیا دار الجزاء ہوتی، حالانکہ جنت دارالجزاء اور دنیا دار العمل ہے۔ اور پھر ایک قول کی بنا پر حضرت آدم علیہ السلام کے ہبوط کا واقعہ توبہ کے قبول ہونے کے بعد ہوا۔ تو جب توبہ قبول ہو گئی تو اس کے بعد سزا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ سزا و عقاب کا کوئی محل رہتا ہے۔ چنانچہ ہبوط آدمؑ کے سلسلہ میں ارشاد باری ہے:

﴿وَعَصٰٓى اٰدَمُ رَبَّہٗ فَغَوٰى۝۱۲۱۠ۖ ثُمَّ اجْتَبٰىہُ رَبُّہٗ فَتَابَ عَلَيْہِ وَہَدٰى۝۱۲۲ قَالَ اہْبِطَا مِنْہَا جَمِيْعًۢا﴾

آدمؑ نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی تو وہ محرومی سے دو چار ہوئے۔ اس کے بعد ان کے پروردگار نے انہیں چن لیا اور توبہ قبول فرمائی اور ان کی ہدایت کی۔ فرمایا کہ تم دونوں بہشت سے نیچے اتر جاؤ۔ [۱۹]

اس آیت میں ہبوط کا تذکرہ توبہ کے بعد ہے اور اسے سزا و عقوبت کے نتیجہ کے طور پر بیان نہیں کیا،بلکہ صاف ظاہر ہے کہ ان کے مقصد تخلیق کے پیش نظر انہیں زمین پر اتارا۔ اور اس قول کی تائید امیرالمومنین علیہ السلام کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے:

ثُمَّ بَسَطَ اللهُ سُبْحَانَهٗ لَهٗ فِیْ تَوْبَتِهٖ، وَ لَقَّاهُ كَلِمَةَ رَحْمَتِهٖ، وَ وَعَدَهُ الْمَرَدَّ اِلٰى جَنَّتِهٖ، فَاَهْبَطَهٗ اِلٰى دَارِ الْبَلِیَّةِ، وَ تَنَاسُلِ الذُّرِّیَّةِ.

پھر اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کیلئے توبہ کا دامن پھیلایا، انہیں رحمت کے کلمے سکھائے، جنت میں دوبارہ پہنچانے کا ان سے وعدہ کیا اور انہیں دار ابتلاؤ محل افزائش نسل قرار دیا۔ [۲۰]

[٭٭٭٭٭]

[۱]۔ سورہ حجر، آیت ۲۸

[۲]۔ مناقب ابن شہر آشوب، ج۱، ص ۲۱۴

[۳]۔ سورہ بقرہ، آیت ۱۹

[۴]۔ سورہ طہٰ، آیت ۱۲۰

[۵]۔ سورہ بقرہ، آیت ۳۷

[۶]۔ سورہ بقرہ، آیت ۳۶

[۷]۔ سورہ طہٰ، آیت ۱۲۱

[۸]۔ سورہ جن، آیت ۲۳

[۹]۔ سورہ طہٰ، آیت ۱۲۱

[۱۰]۔ سورہ بقرہ، آیت ۲۵۶

[۱۱]۔ سورہ بقرہ، آیت ۳۷

[۱۲]۔ سورہ اعراف، آیت ۲۲

[۱۳]۔ سورہ اعراف، آیت ۱۹

[۱۴]۔ سورہ اعراف، آیت ۲۳

[۱۵]۔ سورہ بقرہ، آیت ۳۶

[۱۶]۔ سورہ طہٰ، آیت ۱۱۷-۱۱۹

[۱۷]۔ سورہ اعراف، آیت ۲۰

[۱۸]۔ ریاض السالکین، ج ۳، ص ۱۸۵

[۱۹]۔ سورہ بقرہ، آیت ۲۲۹

[۲۰]۔ سورہ طہٰ، آیت ۱۲۱-۱۲۳

[۲۱]۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ۱

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button