7- خوف و خطر کے موقع پر حضرتؑ کی دعا
۷۔ دُعَآئُہٗ عَلَیْہِ السَّلَامُ مِمَّا یَخَافُہٗ وَ یَحْذَرُہٗ
خوف و خطر کے موقع پر حضرتؑ کی دعا:
اِلٰهِیْ اِنَّهٗ لَیْسَ یَرُدُّ غَضَبَكَ اِلَّا حِلْمُكَ، وَ لَا یُنْجِیْ مِنْ عِقَابِكَ اِلَّا عَفْوُكَ، وَ لَا یُخَلِّصُ مِنْكَ اِلَّا رَحْمَتُكَ وَ التَّضَرُّعُ اِلَیْكَ.
اے میرے معبود! تیرے غضب کو کوئی چیز روک نہیں سکتی سوا تیرے حلم کے، اور تیرے عذاب سے کوئی چیز چھڑا نہیں سکتی سوا تیرے عفو و کرم کے، اور تجھ سے کوئی چیز بچا نہیں سکتی سوا تیری رحمت اور تیری بارگاہ میں تضرع و زاری کے۔
فَهَبْ لِیْ یَاۤ اِلٰهِیْ فَرَجًا بِالْقُدْرَةِ الَّتِیْ بِهَا تُحْیِیْ مَیْتَ الْبِلَادِ، وَ بِهَا تَنْشُرُ اَرْوَاحَ الْعِبَادِ، وَ لَا تُهْلِكْنِیْ، وَ عَرِّفْنِی الْاِجَابَةَ یَا رَبِّ، وَ ارْفَعْنِیْ وَ لَا تَضَعْنِیْ، وَ انْصُرْنِیْ، وَ ارْزُقْنِیْ، وَ عَافِنِیْ مِنَ الٰاٰفَاتِ.
اے میرے معبود! تو اس قدرت کے ذریعہ جس سے مردہ زمینوں کو زندہ کرے گا اور بندوں کی (مردہ) روحوں کو زندگی دے گا مجھے کشائش و فارغ البالی عطا کر اور تباہ و برباد نہ ہونے دے اور( موت سے پہلے) قبولیت دُعا سے آگاہ کر دے، اے میرے پروردگار! اور مجھے رفعت و سربلندی دے اور پست و نگوں سار نہ کر، اور میری امداد فرما اور مجھے روزی دے، اور آفتوں سے حفظ و امان میں رکھ۔
یَا رَبِّ اِنْ تَرْفَعْنِیْ فَمَنْ یَّضَعُنِیْ؟ وَ اِنْ تَضَعْنِیْ فَمَنْ یَّرْفَعُنِیْ؟ وَ قَدْ عَلِمْتُ یَاۤ اِلٰهِیْۤ اَنْ لَّیْسَ فِیْ حُكْمِكَ ظُلْمٌ، وَ لَا فِیْ نَقِمَتِكَ عَجَلَةٌ، اِنَّمَا یَعْجَلُ مَنْ یَّخَافُ الْفَوْتَ، وَ یَحْتَاجُ اِلَى الظُّلْمِ الضَّعِیْفُ، وَ قَدْ تَعالَیْتَ عَنْ ذٰلِكَ یَا سَیِّدِیْ عُلُوًّا كَبِیْرًا.
پروردگار! اگر تو مجھے بلند کرے تو پھر کون مجھے پست کر سکتا ہے؟ اور اگر تو پست کرے تو کون بلند کر سکتا ہے؟ اور اے میرے معبود! مجھے بخوبی علم ہے کہ تیرے حکم میں ظلم کا شائبہ نہیں ہے، اور نہ تیرے انتقام میں جلدی، جلدی تو وہ کرتا ہے جسے موقع کے ہاتھ سے نکل جانے کا اندیشہ ہوتا ہے، اور ظلم کرنے کی ضرورت اُسے پڑتی ہے جو کمزور و ناتواں ہوتا ہے، اور تو اے میرے مالک! اس سے کہیں زیادہ بلند و برتر ہے۔
رَبِّ لَا تَجْعَلْنِیْ لِلْبَلَآءِ غَرَضًا، وَ لَا لِنَقِمَتِكَ نَصَبًا، وَ مَهِّلْنِیْ وَ نَفِّسْنِیْ، وَ اَقِلْنِیْ عَثْرَتِیْ، وَ لَا تُتْبِعْنِیْ بِالْبَلَآءِ، فَقَدْ تَرٰى ضَعْفِیْ وَ قِلَّةَ حِیْلَتِیْ، فَصَبِّرْنِیْ، فَاِنّیْ یَا رَبِّ ضَعِیْفٌ مُّتَضَرِّعٌ اِلَیْكَ.
اے میرے پروردگار! مجھے بلا و مصیبت کا ہدف اور اپنے عذاب کا نشانہ نہ بنا، اور مجھے مہلت دے، اور میرے غم اندوہ کو دور کر، میری لغزش سے درگزر فرما، اور مصیبت میرے پیچھے نہ لگا، کیونکہ میری کمزوری و بے چارگی تیرے سامنے ہے، تو مجھے صبر و ثبات کی ہمت دے، کیونکہ اے میرے پروردگار! میں کمزور اور تیرے آگے گڑگڑانے والا ہوں۔
یَا رَبِّ وَ اَعُوْذُ بِكَ مِنْكَ فَاَعِذْنِیْ، وَ اَسْتَجِیْرُ بِكَ مِنْ كُلِّ بَلَآءٍ فَاَجِرْنِیْ، وَ اَسْتَتِرُ بِكَ فَاسْتُرْنِیْ یَا سَیِّدِیْ مِمَّا اَخَافُ وَ اَحْذَرُ، وَ اَنْتَ الْعَظِیْمُ، اَعْظَمُ مِنْ كُلِّ عَظِیْمٍ.
اے میرے پروردگار! میں تجھ سے تیرے ہی دامن رحمت میں پناہ مانگتا ہوں لہٰذا مجھے پناہ دے اور ہر مصیبت و ابتلاء سے تیرے ہی دامن میں امان کا طلبگار ہوں لہٰذا مجھے امان دے، اور تجھ سے پردہ پوشی چاہتا ہوں لہٰذا جن چیزوں سے میں خوف و ہراس محسوس کرتا ہوں اُن سے اے میرے مالک اپنے دامن حفظ و حمایت میں چھپا لے ،اور تو عظیم اور ہر عظیم سے عظیم تر ہے۔
بِكَ بِكَ بِكَ اسْتَتَرْتُ، یَاۤ اَللّٰهُ یَاۤ اَللّٰهُ! یَاۤ اَللّٰهُ یَاۤ اَللّٰهُ! یَاۤ اَللّٰهُ یَاۤ اَللّٰهُ! یَاۤ اَللّٰهُ، یَاۤ اَللّٰهُ! یَاۤ اَللّٰهُ یَاۤ اَللّٰهُ! صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهِ الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهِرِیْنَ.
میں تیرے اور صرف تیرے اور محض تیرے ذریعہ (پردہ ٔ حفظ و امان میں) چھپا ہوا ہوں، اے اللہ! اے اللہ! اے اللہ! اے اللہ! اے اللہ! اے اللہ! اے اللہ! اے اللہ! اے اللہ! اے اللہ! تو محمدؐ اور اُن کی پاک و پاکیزہ آلؑ پر رحمت اور کثیر سلامتی نازل فرما۔
–٭٭–
یہ دُعا دنیا کے آلام و مصائب اور سوء انجام سے بچاؤ کیلئے پڑھی جاتی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے حلم کو اس کے غضب و انتقام سے مانع، اس کے عفو و درگزر کو سزا و عقوبت سے سپر اور اس کی رحمت اور اس کی بارگاہ میں تضرع و عاجزی کو نجات اُخروی کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ اس کا حلم آڑے نہ آتا تو اس کا سیل غضب روکا نہ جا سکتا اور عفو و رحمت کی کار فرمائی نہ ہوتی تو بخشش و نجات کی کوئی صورت پیدا نہ ہوتی۔ کیونکہ تقاضائے عدل تعزیر و عقوبت ہے اور اس تقاضے کو صرف رحمت ہی دبا سکتی ہے جو اس کے غضب سے سابق ہے۔
عفو و رحمت کے ذکر کے بعد اس کے اقتدار کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ خشک زمینوں میں شادابی اور مردوں میں حیات پیدا کر سکتا ہے، تو پھر کیا بعید ہے کہ وہ تنگی و سختی کو وسعت و کشایش سے اور فقر و احتیاج کو غنا و بے نیازی سے بدل دے، جبکہ وہی رزق و عافیت کا بخشنے والا اور رفعت و بلندی دینے والا ہے اور اس کے علاوہ کوئی اختیار و اقتدار نہیں رکھتا۔ وہ جسے پست کرنا چاہے اسے کوئی اوج و عروج پر نہیں پہنچا سکتا اور جسے ذلیل کرنا چاہے اسے کوئی عزت و رفعت نہیں دے سکتا اور جسے اپنی نصرت سے محروم کرنا چاہے اسے کوئی مدد نہیں دے سکتا۔
اور ان تمام صورتوں میں اس کا عدل ہی کار فرما ہوتا ہے اور کسی مرحلہ پر ظلم نہیں کرتا۔ اس لئے کہ ظلم کی ضرورت اسے ہوتی ہے جو کمزور و ناتوان ہو۔ اس بنا پر کہ اسے یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ عدم تشدد کی صورت میں اقتدار و تسلط میں کمی رونما ہو جائے گی اور جو ہر لحاظ سے توانا و غالب ہے اسے اپنے اقتدار کے تحفظ کیلئے ظلم کی احتیاج ہی کیا ہے۔ اسی طرح وہ گنہگاروں کو سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا۔ اس لئے کہ جلدی وہ کرتا ہے جسے یہ خطرہ ہو کہ مجرم و گنہگار اس کے پنچہ سے نکل بھاگے گا اور جس کا محیط اقتدار ہمہ گیر ہو اسے یہ اندیشہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی اس کی گرفت سے آزاد اور اس کے حدود مملکت سے باہر نکل جائے گا۔ اور پھر وہ ہر عظیم سے عظیم تر ہے اور اس کے علاوہ ہر چیز اس کی مخلوق اور ہر شخص اس کا پروردہ ہے۔ اور اپنی زندگی و بقا میں اس کا دست نگر ہے اور جو محتاج و دست نگر ہو وہ آزاد کیسے رہ سکتا ہے۔
حضرتؑ نے دُعا کے آخر میں اللہ کا نام بار بار لیا ہے۔ یہ تکرار حظ و التذاذ اور طلب و الحاح کیلئے ہے۔ اور اذکار و اوراد اور دُعا و مناجات میں خاصان خدا کی زبان پر اللہ کا نام ہی زیادہ آتا ہے اور یہ نام اس کے ناموں میں سب سے بلند تر، مشہور اور نمایاں ہے اور قبل اسلام جہاں اور معبودوں کے نام تجویز کر لئے گئے تھے وہاں ایک اَن دیکھی ہستی کا تصور بھی تھا جو ’’اللہ‘‘ کے نام سے موسوم کی جاتی تھی۔ چنانچہ جاہلیت کے دور میں لبید کی زبان سے نکلا ہوا یہ شعر اس کا شاہد ہے:
اَلَا كُلُّ شَیْءٍ مَا خَلَا اللّٰهَ بَاطِلٌ
وَ كُلُّ نَعِيْمٍ لَا مَحَالَةَ زَآئِلٌ
”دیکھو! اللہ کے علاوہ ہر چیز بے حقیقت اور ناپائیدار ہے اور ہر نعمت کیلئے بہرحال فنا و زوال ہے“۔[۱]
اس نام میں اور اللہ تعالیٰ کے دوسرے ناموں میں یہ فرق ہے کہ:
اس کے تمام ناموں کو اس نام کی طرف منسوب کیا جا سکتا ہے۔ جیسے یہ کہ ’’اللہ‘‘ رحیم ہے، رحمٰن ہے، قادر ہے، مگر اسے دوسرے ناموں کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا کہ یہ کہا جائے کہ: ’’رحیم‘‘ اللہ ہے، ’’رحمٰن‘‘ اللہ ہے، ’’قادر‘‘ اللہ ہے۔ کیونکہ ’’اللہ‘‘ اسمِ ذات ہے اور دوسرے اسماء صفاتی ہیں۔ لہٰذا جس طرح اوصاف کا انتساب ذات کی طرف ہوتا ہے اسی طرح اس کے صفاتی نام اسم ذات کی طرف منسوب ہوں گے۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:
﴿وَلِلہِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْہُ بِہَا۰۠﴾
اچھی صفتوں والے نام اللہ ہی کیلئے ہیں لہٰذا اسے انہی ناموں سے پکارا کرو۔[۲]
دوسرے یہ کہ یہ نام صرف خالق عالم کیلئے مخصوص ہے اور کسی اور پر اس کا اطلاق نہ حقیقتاً ہوتا ہے نہ مجازاً۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:
﴿ہَلْ تَعْلَمُ لَہٗ سَمِيًّا۶۵ۧ﴾
کیا تمہارے علم میں اس کا ہمنام کوئی اور بھی ہے۔[۳]
تیسرے یہ کہ یہ اس ذات پر دلالت کرتا ہے جو جامع جمیع صفات ہے۔ اور چونکہ اسم ذات ہے لہٰذا ہر اس صفت پر حاوی ہو گا جو اللہ تعالیٰ کیلئے تجویز ہو سکتی ہے، بخلاف دوسرے ناموں کے کہ وہ صرف ایک ایک صفت پر دلالت کرتے ہیں۔ جیسے: ’’قادر‘‘ صفت قدرت پر، ’’عالم‘‘ صفت علم پر، ’’رحیم‘‘ صفت رحمت پر۔
چوتھے یہ کہ یہ نام معنوی اعتبار سے اس ہستی کی نشاندہی کرتا ہے جو معبودیت و اُلوہیت کی حامل ہو۔ چنانچہ یہ نام اگر ’’تالہ‘‘ سے مشتق ہے تو اس کے معنی ہوں گے: ’’وہ ذات جو عبادت و پرستش کی سزاوار ہے‘‘ اور ’’تالہ‘‘ کے معنی تعبد کے ہیں۔ اور ’’الہ ‘‘سے مشتق ہے تو اس کے معنی ہوں گے: ’’وہ ذات جس کی طرف مخلوقات اپنے مقاصد و حوائج کیلئے رجوع کرتی ہے‘‘ اور ’’الہ‘‘ کے معنی رجوع کرنے اور سہارا ڈھونڈنے کے ہیں۔ اور ’’ولہ‘‘ سے مشتق ہے تو اس کے معنی ہوں گے: ’’وہ ذات جس کے سمجھنے میں عقل و دانش سرگرداں اور فہم و ادراک متحیر و درماندہ ہیں‘‘ اور ’’ولہ‘‘ کے معنی تحیر کے ہیں۔ اور ’’لاہ‘‘ سے مشتق ہے تو اس کے معنی ہوں گے وہ ذات جو عقول و افہام سے بالاتر اور آنکھوں سے مخفی ہے اور ’’لاہ‘‘ کے معنی بلند و برتر اور پوشیدہ ہونے کے ہیں۔ اور یہ تمام معانی اسی ذات کیلئے ہو سکتے ہیں جو خالق کائنات، مبدا اول اور معبود حقیقی ہو۔
پانچویں یہ کہ اس نام کے حروف میں سے جتنے حروف چاہے کم کر دیجئیے پھر بھی اس کی دلالت اسی ذات واحد و یکتا پر ہوتی ہے۔ چنانچہ سیّد نعمت اللہ جزائری نے کتاب مشارق الانوار سے نقل کیا ہے کہ: اللہ میں سے ’’الف‘‘ نکال دیا جائے تو ’’للہ‘‘ رہ جائے گا اور ’’لام‘‘ نکال دیا جائے تو ’’الہ‘‘ رہ جائے گا اگر ’’الف‘‘ اور ایک ’’لام‘‘ نکال دیا جائے تو ’’لہ‘‘ رہ جائے گا اور اگر الف کے ساتھ دونوں لام نکال دیئے جائیں تو ’’ھا‘‘ رہ جائے گا جو واؤ کے ساتھ مل کر ’’ھو‘‘ کی صورت میں مستعمل ہوتا ہے اور یہ تمام الفاظ اسی کی ذات پر دلالت کرتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
[۱]۔ بحارالانوار، ج ۲۲، ص ۲۶۷
[۲]۔ سورہ اعراف، آیت ۱۸۰
[۳]۔ سورہ مریم، آیت ۶۵