1- دعائے روز یک شنبہ
۱۔ دُعَآءُ یَوْمِ الْاَحَدِ
[۱] دُعائے روز یک شنبہ
بِسْمِ اللهِ الَّذِیْ لَاۤ اَرْجُوْۤ اِلَّا فَضْلَهٗ، وَ لَاۤ اَخْشٰۤى اِلَّا عَدْلَهٗ، وَ لَا اَعْتَمِدُ اِلَّا قَوْلَهٗ، وَ لَاۤ اَتَمَسَّكُ اِلَّا بِحَبْلِهٖ.
اس اللہ کے نام سے مدد مانگتا ہوں جس کے فضل و کرم ہی کا امیدوار ہوں، اور جس کے عدل ہی سے اندیشہ ہے، اسی کی بات پر مجھے بھروسا ہے، اور اس کی رسی سے وابستہ ہوں۔
بِكَ اَسْتَجِیْرُ یَا ذَا الْعَفْوِ وَ الرِّضْوَانِ، مِنَ الظُّلْمِ وَ الْعُدْوَانِ، وَ مِنْ غِیَرِ الزَّمَانِ، وَ تَواتُرِ الْاَحْزَانِ، وَ مِنْ طَوَارِقِ الْحَدَثَانِ، وَ مِنِ انْقِضَآءِ الْمُدَّةِ قَبْلَ التَّاَهُّبِ وَ الْعُدَّةِ.
اے عفو و خوشنودی کے مالک! میں تجھ سے ظلم و جور، زمانہ کے انقلابات، غموں کے پہیم ہجوم اور نازل ہونے والی مصیبتوں سے پناہ مانگتا ہوں، اور اس بات سے کہ آخرت کا ساز و سامان اور زادِ راہ مہیّا کرنے سے پہلے ہی مدت حیات ختم ہو جائے۔
وَ اِیَّاكَ اَسْتَرْشِدُ لِمَا فِیْهِ الصَّلَاحُ وَ الْاِصْلَاحُ، وَ بِكَ اَسْتَعِیْنُ فِیْمَا یَقْتَرِنُ بِهِ النَّجَاحُ وَ الْاِنْجَاحُ، وَ ایَّاكَ اَرْغَبُ فِیْ لِبَاسِ الْعَافِیَةِ وَ تَمَامِهَا، وَ شُمُوْلِ السَّلَامَةِ وَ دَوَامِهَا.
اور تجھ ہی سے ان چیزوں کی رہنمائی چاہتا ہوں جن میں اپنی بہبودی اور دوسروں کی فلاح و درستی کا سامان ہو، اور تجھ ہی سے مدد مانگتا ہوں ان باتوں کی جن میں اپنی فلاح و کامرانی اور دوسرے کو کامیاب بنانے کی صورت مضمر ہو، اور تجھ ہی سے خواہشمند ہوں لباس عافیت (کے پہنانے) اور اسے اتمام تک پہنچانے کا اور سلامتی کے شامل حال ہونے اور اس کے دائم و بر قرار رہنے کا۔
وَ اَعُوْذُ بِكَ یا رَبِّ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّیٰطِیْنِ، وَ اَحْتَرِزُ بِسُلْطانِكَ مِنْ جَوْرِ السَّلَاطِیْنِ.
اور تیرے ہی ذریعہ اے میرے پروردگار! پناہ مانگتا ہوں شیطان کے وسوسوں سے، اور تیرے ہی تسلط و اقتدار کے ذریعہ تحفظ چاہتا ہوں فرمانرواؤں کے ظلم و جور سے۔
فَتَقَبَّلْ مَا كَانَ مِنْ صَلٰوتِیْ وَ صَوْمِیْ، وَ اجْعَلْ غَدِیْ وَ مَا بَعْدَهٗ اَفَضَلَ مِنْ سَاعَتِیْ وَ یَوْمِیْ، وَ اَعِزَّنِیْ فِیْ عَشِیْرَتِیْ وَ قَوْمِیْ، وَ احْفَظْنِیْ فِیْ یَقْظَتِیْ وَ نَوْمِیْ.
تو میری گزشتہ نمازوں اور روزوں کو قبول فرما، اور کل کے دن اور اس کے بعد کے دنوں کو آج کی گھڑی اور آج کے دن سے بہتر قرار دے، اور مجھے اپنے قوم و قبیلہ میں عزت و توقیر دے، اور خواب و بیداری کی حالت میں میری حفاظت فرما۔
فَاَنْتَ اللّٰهُ خَیْرٌ حَافِظًا، وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ.
تو ہی وہ اللہ ہے جو سب سے بہتر نگران و محافظ ہے، اور تو ہی سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔
اَللّٰهُمَّ اِنِّیْۤ اَبْرَاُ اِلَیْكَ فِیْ یَوْمِیْ هٰذَا وَ مَا بَعْدَهٗ مِنَ الْاٰحَادِ، مِنَ الشِّرْكَ وَ الْاِلْحَادِ، وَ اُخْلِصُ لَكَ دُعَآئِیْ تَعَرُّضًا لِّلْاِجَابَةِ، وَ اُقِیْمُ عَلٰى طَاعَتِكَ رَجَآءً لِّلْاِثَابَة.
اے اللہ ! میں تیری بارگاہ میں اس اتوار اور بعد کے اتواروں میں شرک و بےدینی سے بیزاری کا اظہار کرتا ہوں، اور قبولیت کی خاطر خلوص نیت کے ساتھ تجھ سے دُعا کرتا ہوں، اور بامید ثواب تیری اطاعت و فرمانبرداری پر بر قرار ہوں۔
فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ خَیْرِ خَلْقِكَ، الدَّاعِیْ اِلٰى حَقِّكَ، وَ اَعِزَّنِیْ بِعِزِّكَ الَّذِیْ لَا یُضَامُ، وَ احْفَظْنِیْ بِعَیْنِكَ الَّتِیْ لَا تَنَامُ، وَ اخْتِمْ بِالِانْقِطَاعِ اِلَیْكَ اَمْرِیْ، وَ بِالْمَغْفِرَةِ عُمْرِیْ، اِنَّكَ اَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ.
لہٰذا تو بہترين خلائق اور حق کے نمائندے (حضرت) محمد ﷺ پر رحمت نازل فرما اور اپنی اس عزت کے وسیلہ سے جسے مغلوب نہیں کیا جا سکتا مجھے عزت و بزرگی دے، اور اپنی اس آنکھ سے میری حفاظت فرما جو خواب آلودہ نہیں ہوتی، اور میرے ہر کام کا انجام اپنے دامن سے وابستگی اور میری عمر کا خاتمہ اپنی مغفرت و آمرزش پر قرار دے، بلا شبہ تو بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
–٭٭–
لمحے ساعتوں میں اور ساعتیں دنوں میں اور دِن ہفتوں میں ڈھل کر اور ہفتے مہینوں میں اور مہینے سالوں میں تبدیل ہو کر ہلکے پھلکے بادلوں کی طرح اڑتے چلے جا رہے ہیں جنہیں نہ کہیں ٹھہراؤ ہے نہ قرار۔ اور انہی گریز پا لمحوں اور مختصر دنوں کے مجموعہ کا نام زندگی ہے۔ جب یہ دِن سمٹ جائیں گے تو زندگی کا شیرازہ بکھر جائے گا اور دنوں کے ختم ہوتے ہی زندگی ختم ہو جائے گی۔ اس لحاظ سے ایک ایک دن بلکہ ایک ایک دقیقہ اور ایک ایک لمحہ بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ کیونکہ ایک دن کے گزرنے سے ہماری زندگی میں ایک دن کی کمی ہو جاتی ہے۔ اور یہ دِن اتنا قیمتی سرمایہ ہے کہ جب ہاتھ سے نِکل جاتا ہے، تو پھر سیم و زر کے خزانے بھی اس دولتِ رفتہ کو واپس نہیں لا سکتے۔ اگر زندگی کی کچھ قیمت ہے تو دِن کی قیمت سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور زندگی کی کچھ اہمیت ہے تو دن کی اہمیت بھی مسلم ہو گی۔ یہی ایک دِن ہمارے لئے تباہی و ہلاکت کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے اور اسی ایک دن سے زندگی کیلئے مفید نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں اور زندگی کی ناہمواریوں کو ہموار کیا جا سکتا ہے۔ وہ بھی دن ہے جو مفسدوں کو جنم دیتا، مہلک گناہوں میں کٹتا اور عمرِ گزشتہ کی نیکیوں پر پانی پھیر دیتا ہے اور وہ بھی دن ہے جو اصلاحِ نفس، تہذیب کردار اور توبہ و انابت میں گزرتا ہے اور پچھلے گناہوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جاتا ہے۔
دن ہونے میں دونوں برابر ہیں مگر نتائج کے لحاظ سے ان میں اتنا ہی فرق ہے جتنا زہر اور تریاق، اور جہنم کے شعلوں اور فردوس کے لالہ زاروں میں۔ لہٰذا زندگی اور اس کے مآب کو کامیاب بنانے کیلئے دن کے لمحات کو کامیاب بنانے کی ضرورت ہے اور دن کو کامیاب بنانے کیلئے ہمارے سامنے وہ عملی مثالیں موجود ہیں جو آلِ محمد علیہ السلام کے ساتھ وابستہ ہیں اور ان کے ایسے تعلیمات بھی ہیں جن کی پیروی ہماری زندگی کی کامیابی کی ضامن ہے۔ جب انسان ان کی قائم کر دہ بنیادوں پر اپنی زندگی کی تعمیر کرتا ہے تو وہ صرف اپنی ہی زندگی کو کامیاب نہیں بناتا، بلکہ دنیائے انسانیت کیلئے ایک مثالی کردار کا نمونہ بن کر دوسروں کو کامیابی کی راہیں دکھاتا ہے۔
چنانچہ یہ ”ہفت ہیکل“ یعنی ہفتہ کے سات دنوں کی سات دُعائیں ان تعلیمات پر مشتمل ہیں جو مبدا و معاد سے وابستگی پیدا کرکے زندگی کو کامیابی کی شاہراہ پر گامزن کرتے ہیں اور ایک ایک دن کی اہمیت کی طرف متوجہ کرکے اللہ تعالیٰ سے لو لگانے، اس کے عدل کے تقاضوں سے ڈرنے، شرک و الحاد سے بچنے، حقوق اللہ و حقوق العباد سے عہدہ بر آ ہونے، زادِ آخرت کے مہیا کرنے اور صرف اسی سے امیدیں وابستہ کرنے کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر شخص ذہنی لحاظ سے کسی الجھن میں یا جسمانی اعتبار سے کسی تکلیف میں مبتلا یا کسی پیش آیند خطرہ سے ہراساں ہوتا ہے، اسے اپنے دن کی ابتدا اس دُعا سے کرنا چاہیے جو اس دن سے مخصوص ہے تا کہ اللہ تعالیٰ سے رجوع و وابستگی، مصائب و آلام، حوادث و فتن اور بلیات و آفات سے مامون و محفوظ رکھے۔
زیر نظر دُعا روز یک شنبہ کی دُعا ہے جس میں زمانے کے حوادث، دنیا کے رنج و اندوہ، شیطان کے وساوس اور سلاطین جور کے ظلم و ستم سے پناہ مانگی ہے اور اس کے ساتھ دنیا و آخرت کی کامیابی، عزت و توقیر، صحت و سلامتی، صلاح و بہبودی، اعمال صالحہ کی توفیق، روزہ و نماز کی پذیرائی، دُعا کی قبولیت اور حسن انجام اور خاتمہ بالخیر کی التجا کی ہے اور انہی چیزوں میں زندگی کی کامیابی کا راز مضمر ہے۔
٭٭٭٭٭