صحیفہ کاملہ

2- دعائے روز دو شنبہ

۲۔ دُعَآءُ یَوْمِ الْاِثْنَیْنِ

[۲] دُعائے روز دو شنبہ

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ لَمْ یُشْهِدْ اَحَدًا حِیْنَ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ، وَ لَا اتَّخَذَ مُعِیْنًا حِیْنَ بَرَاَ النَّسَمَاتِ، لَمْ یُشارَكْ فِی الْاِلٰهِیَّةِ، وَ لَمْ یُظَاهَرْ فِی الْوَحْدَانِیَّةِ.

تمام تعریفیں اس اللہ کیلئے ہیں کہ جب اس نے زمین و آسمان کو خلق فرمایا تو کسی کو گواہ نہیں بنایا، اور جب جانداروں کو پیدا کیا تو اپنا کوئی مدد گار نہیں ٹھہرایا، اُلوہیت میں کوئی اس کا شریک اور وحدت (و انفرادیت سے مخصوص ہونے) میں کوئی اس کا معاون نہیں ہے۔

كَلَّتِ الْاَلْسُنُ عَنْ غایَةِ صِفَتِهٖ، وَ انْحَسَرَتِ الْعُقُوْلُ عَنْ كُنْهِ مَعْرِفَتِهٖ، وَ تَوَاضَعَتِ الْجَبَابِرَةُ لِهَیْبَتِهٖ، وَ عَنَتِ الْوُجُوْهُ لِخَشْیَتِهٖ، وَ انْقَادَ كُلُّ عَظِیْمٍ لِّعَظَمَتِهٖ.

زبانیں اس کے انتہائے صفات کے بیان کرنے سے گنگ اور عقلیں اس کی معرفت کی تہہ تک پہنچنے سے عاجز ہیں، جابر و سرکش اس کی ہیبت کے سامنے جھکے ہوئے، چہرے نقابِ خشیت اوڑھے ہوئے، اور عظمت والے اس کی عظمت کے آگے سرافگندہ ہیں۔

فَلَكَ الْحَمْدُ مُتَوَاتِرًا مُّتَّسِقًا، وَ مُتَوَالِیًا مُّسْتَوْسِقًا، وَ صَلَوَاتُهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ اَبَدًا، وَ سَلَامُهٗ دَآئِمًا سَرْمَدًا.

تو بس تیرے ہی لئے حمد و ستائش ہے پے در پے، لگاتار، مسلسل و پہیم، اور اس کے رسولﷺ پر اللہ کی ابدی رحمت اور دائم و جاودانی سلام ہو۔

اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ اَوَّلَ یَوْمِیْ هٰذَا صَلَاحًا، وَ اَوْسَطَهٗ فَلَاحًا، وَ اٰخِرَهٗ نَجَاحًا.

بار الٰہا! میرے اس دن کے ابتدائی حصہ کو صلاح و درستی، درميانی حصہ کو فلاح و بہودی اور آخری حصہ کو کامیابی و کامرانی سے ہمکنار قرار دے۔

وَ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ یَوْمٍ اَوَّلُهٗ فَزَعٌ، وَ اَوْسَطُهٗ جَزَعٌ، وَ اٰخِرُهٗ وَجَعٌ.

اور اس دن سے جس کا پہلا حصہ خوف ،درمیانی حصہ بے تابی اور آخری حصہ درد و الم لئے ہو، تجھ سے پناہ مانگتا ہوں۔

اَللّٰهُمَّ اِنِّیْۤ اَسْتَغْفِرُكَ لِكُلِّ نَذْرٍ نَّذَرْتُهٗ، وَ لِكُلِّ وَعْدٍ وَّعَدْتُّهٗ، وَ لِكُلِّ عَهْدٍ عَاهَدْتُّهٗ، ثُمَّ لَمْ اَفِ بِهٖ.

بار الٰہا! ہر اس نذر کیلئے جو میں نے مانی ہو، ہر اس وعدہ کی نسبت جو میں نے کیا ہو، اور ہر اس عہد و پیمان کی بابت جو میں نے باندھا ہو، پھر کسی ایک کو بھی تیرے لئے پورا نہ کیا ہو، تجھ سے عفو وبخشش کا خواستگار ہوں۔

وَ اَسْئَلُكَ فِیْ مَظَالِمِ عِبَادِكَ عِنْدِیْ، فَاَیُّمَا عَبْدٍ مِّنْ عَبِیْدِكَ، اَوْ اَمَةٍ مِنْ اِمَآئِكَ، كَانَتْ لَهٗ قِبَلِیْ مَظْلَمَةٌ ظَلَمْتُهَا اِیَّاهُ فِیْ نَفْسِهٖ، اَوْ فِیْ عِرْضِهٖ، اَوْ فِیْ مَالِهٖ، اَوْ فِیْ اَهْلِهٖ وَ وَلَدِهٖ، اَوْ غَیْبَةُ نِ اغْتَبْتُهٗ بِهَا، اَوْ تَحَامُلٌ عَلَیْهِ بِمَیْلٍ اَوْ هَوًى، اَوْ اَنَفَةٍ، اَوْ حَمِیَّةٍ، اَوْ رِیَآءٍ، اَوْ عَصَبِیَّةٍ، غَآئِبًا كَانَ اَوْ شَاهِدًا، وَ حَیًّا كَانَ اَوْ مَیِّتًا، فَقَصُرَتْ یَدِیْ، وَ ضَاقَ وُسْعِیْ عَنْ رَّدِّهَاۤ اِلَیْهِ، وَ التَّحَلُّلِ مِنْهُ.

اور تیرے بندوں کے ان حقوق و مظالم کی بابت جو مجھ پر عائد ہوتے ہیں، تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تیرے بندوں میں سے جس بندے کا اور تیری کنیزوں میں سے جس کنیز کا کوئی حق مجھ پر ہو، اس طرح کہ خود اس کی ذات یا اس کی عزت یا اس کے مال یا اس کے اہل و اولاد کی نسبت میں مظلمہ کا مرتکب ہوا ہوں، یا غیبت کے ذریعہ اس کی بد گوئی کی ہو، یا(اپنے ذاتی ) رحجان، یا کسی خواہش، یا رعونت، یا خود پسندی، یا ریا، یا عصبیت سے، اس پر ناجائز دباؤ ڈالا ہو، چاہے وہ غائب ہو یا حاضر، زنده ہو یا مر گیا ہو، اور اب اس کا حق ادا کرنا یا اسے بحل کرانا، میرے دسترس سے باہر اور میری طاقت سے بالا ہو۔

فَاَسْئَلُكَ یَا مَنْ یَّمْلِكُ الْحَاجَاتِ، وَ هِیَ مُسْتَجِیْبَةٌ لِّمَشِیَّتِهٖ، وَ مُسْرِعَةٌ اِلٰۤى اِرَادَتِهٖ، اَنْ تُصَلِّیَ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ، وَ اَنْ تُرْضِیَهٗ عَنِّیْ بِمَا شِئْتَ، وَ تَهَبَ لِیْ مِنْ عِنْدِكَ رَحْمَةً، اِنَّهٗ لَا تَنْقُصُكَ الْمَغْفِرَةُ، وَ لَا تَضُرُّكَ الْمَوْهِبَةُ، یَاۤ اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ.

تو اے وہ جو حاجتوں کے بر لانے پر قادر ہے، اور وہ حاجتیں اس کی مشیت کے زیر فرمان اور اس کے ارادہ کی جانب تیزی سے بڑھتی ہیں، میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو محمد ﷺ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرمائے، اور ایسے شخص کو جس طرح تو چاہے مجھ سے راضی کر دے، اور مجھے اپنے پاس سے رحمت عطا کر، بلا شبہ مغفرت و آمرزش سے تیرے ہاں کوئی کمی نہیں ہوتی، اور نہ بخشش و عطا سے تجھے کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے، اے رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔

اَللّٰهُمَّ اَوْلِنِیْ فِیْ كُلِّ یَوْمِ اثْنَیْنِ نِعْمَتَیْنِ مِنْكَ ثِنْتَیْنِ: سَعادَةً فِیْ اَوَّلِهٖ بِطَاعَتِكَ، وَ نِعْمَةً فِیْ اٰخِرِهٖ بِمَغْفِرَتِكَ، یَا مَنْ هُوَ الْاِلٰهُ، وَ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ سِوَاهُ.

بار الٰہا! تو مجھے دو شنبہ کے دن اپنی جانب سے دو نعمتیں مرحمت فرما: ایک یہ کہ اس دن کے ابتدائی حصہ میں تیری اطاعت کے ذریعہ سعادت حاصل ہو ،اور دوسرے یہ کہ اس کے آخری حصہ میں تیری مغفرت کے باعث نعمت سے بهره مند ہوں، اے وہ کہ وہی معبود ہے اور اس کے علاوہ کوئی گناہوں کو بخش نہیں سکتا۔

–٭٭–

اس دُعا میں ابتداءً اللہ کی وحدت و یکتائی، استغنا و بے نیازی، عظمت و کبریائی اور اس کے صفات کی کنہ حقیقت سے عقول و افہام کی درماندگی کا تذکرہ ہے اور صحیفہ کی اکثر و بیشتر دُعاؤں میں اسی پر زیادہ زور دیا گیا ہے کہ خالقِ کائنات یکتا و یگانہ ہے۔ یہ اس لئے کہ ”توحید خالص“ ہی دین کا سرچشمہ اور اسلام کے قصرِ عقائد کی خشتِ اول ہے۔ اگر عقیدۂ توحید مستحکم نہ ہو گا تو مذہب و ملت کی جو عمارت بھی کھڑی کی جائے گی متزلزل و ناپائیدار ہو گی۔ اس بنیادی و اساسی چیز کے تذکرہ کے بعد نذر، وعدہ اور عہد و پیمان کے ایفا اور حقوق العباد کی اہمیت اور اس فریضہ سے عہدہ برآ ہونے کی دُعائیہ پیرا یہ میں تعلیم دی ہے اور یہ طریقۂ تبلیغ و تلقین براہِ راست پند و موعظت سے زیادہ مؤثر و دل نشین ہوتا ہے۔

’’نذر‘‘ یہ ہے کہ انسان اللہ کیلئے کسی ایسے امر کے بجا لانے یا ترک کرنے کا اپنے اوپر التزام کرے جس میں شرعاً رجحان پایا جاتا ہو۔ اس نذر پر طبعاً یہ فائدہ مترتب ہوتا ہے کہ انسان فرائض کی پابندی کا خو گر ہو جاتا ہے اور ان سے عہدہ برآ ہونا چاہتا ہے۔ کیونکہ جب وہ اپنے عائد کر دہ فریضہ کو اہم سمجھتے ہوئے اسے ادا کرتا ہے تو جو فرائض اللہ نے اس پر عائد کر دیئے ہیں انہیں بھی اہمیت دے گا اور غفلت سے احتراز کرتے ہوئے پابند فرائض ہو جائے گا۔ فقہی کتب میں نذر کی تین قسمیں کی گئی ہیں: نذر مجازات، نذر زجر اور نذر تبرّع۔

’’نذرِ مجازات‘‘ یہ ہے کہ انسان نذر کو کسی مقصد و حاجت کے پورا ہونے پر منحصر کر دے۔ اس طرح کہ اگر میرا فلاں کام ہو گیا تو میں فلاں کارِ خیر انجام دوں گا یا فلاں امرِ خیر میں اتنا روپیہ پیسہ صرف کروں گا۔

’’نذرِ زجر‘‘ یہ ہے کہ اسے کسی فعلِ حرام یا مکروہ کے ارتکاب یا کسی امرِ واجب یا مستحب کے ترک سے وابستہ کرے، اس طرح کہ اگر میں نے کوئی نشہ آور چیز استعمال کی یا نماز کو ترک کیا تو ایک گوسفند ذبح کرکے مسکینوں پر تقسیم کر دوں گا۔

’’نذرِ تبرع‘‘ یہ ہے کہ اسے کسی کام کے پورا ہونے یا مقصد کے بر آنے پر موقوف نہ کرے، بلکہ بقصدِ تقرب اس کا التزام کرے کہ اس طرح کہ میں جمعہ کے دن روزہ رکھوں گا۔

بہرحال نذر کی جو بھی قسم ہو اس کا ایفا لازم و واجب ہے۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:

﴿وَلْيُوْفُوْا نُذُوْرَھُمْ﴾

انہیں چاہیے کہ اپنی منّتیں ادا کریں۔[۱]

اور در صورتیکہ منت ادا نہ کرے تو اس پر کفارہ عائد ہو گا۔

’’وعدہ‘‘ باہمی قول و قرار کا نام ہے۔ یہ قول و قرار روزمرہ کی زندگی اور معاشرہ کے تمام کاروبار میں ایک اہم حیثیت رکھتا ہے۔ اگر وعدہ کی پابندی کا لحاظ نہ کیا جائے تو باہمی اعتماد و وثوق ختم اور ایک عام تنفر و بے اعتمادی کا ماحول پیدا ہو جائے گا جس کے نتائج کا اخلاقی انحطاط، بے ضمیری اور پست فطرتی کی صورت میں ظاہر ہونا ضروری ہے۔ انہی نتائج بر نظر کرتے ہوئے اسلام نے وعدہ خلافی سے بشدت منع کیا ہے۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:

﴿يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۝۲ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۝۳﴾

اے ایماندارو! تم ایسی بات کہتے ہی کیوں ہو جو کرتے نہیں۔ یہ بڑی ناراضی کی بات ہے کہ تم ایسی بات کہو جو کرو نہیں۔[۲]

اور پیغمبر اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:

مَنْ كانَ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ‏ وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْيَفِ اِذَا وَعَدَ.

جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر اعتماد رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وعدہ کرے تو اسے پورا کرے۔[۳]

مگر اب تو معاشرہ اس طرح کا بن چکا ہے کہ نہ وعدہ کی کوئی قیمت اور نہ قول و قرار کی کوئی اہمیت سمجھی جاتی ہے۔اگر کسی نے وعدہ یاد دلایا تو مسکرا کر ٹال دیا۔ یا یہ کہہ دیا کہ وعدہ کے ساتھ ان شاء اللہ کا ضمیمہ بھی تو تھا۔ اب مشیت الٰہی ہی نے نہیں چاہا تو ہمارا قصور کیا ہے۔ حالانکہ ان شاء اللہ اگر عادۃً یا تبرکاً کہا گیا ہو تو اس سے وعدہ معلق نہیں قرار پاتا۔ اور اگر وعدہ کو واقعاً مشیتِ الٰہی سے وابستہ کیا ہو تو اس سے وعدہ کی خلاف ورزی، کذب بیانی میں محسوب نہ ہو گی۔ بشرطیکہ جس سے وعدہ کیا گیا ہو وہ بھی وعدہ کے وقت یہ سمجھا ہو کہ وعدہ معلق و مشروط ہے۔ ورنہ صرف ان شاء اللہ سے وعدہ خلافی کا جواز پیدا نہیں کیا جا سکتا۔

’’عہد‘‘ بھی نذر ہی کی ایک قسم ہے، مگر فرق یہ ہے کہ نذر میں رجحان شرعی کا ہونا ضروری ہے اور عہد ہر اس امر کے متعلق ہو سکتا ہے جو حدود و جواز کے اندر ہو اور نذر کی طرح اس کی پابندی لازم و واجب ہے اور خلاف ورزی کی صورت میں کفارہ عائد ہو گا۔ چنانچہ عہد کے متعلق ارشاد الٰہی ہے:

﴿وَاَوْفُوْا بِالْعَہْدِ۝۰ۚ اِنَّ الْعَہْدَ كَانَ مَسْئُوْلًا۝۳۴﴾

عہد و پیمان کو پورا کرو، کیونکہ عہد کے بارے میں پوچھ گچھ ہو گی۔[۴]

حقوق العباد سے مراد وہ حقوق ہیں جو انسانی معاشرہ میں ایک دوسرے پر عائد ہوتے ہیں۔ ان حقوق کا تحفظ تمدن و معاشرت کی سربلندی اور اخلاقی و اجتماعی زندگی کی آراستگی کیلئے از بس ضروری ہے۔ کیونکہ انسان طبعاً اپنے مفاد کے پیش نظر یا اقتدار پسندی کے جذبہ سے متاثر ہو کر دوسروں کے نقصان و ضرر کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھتا اور خواہشات کے زیرِ اثر کیا اپنے اور کیا بیگانے سب کی حق تلفی پر آمادہ ہو جاتا ہے جس کا لازمی نتیجہ تصادم و باہم آویزی ہے۔ لہٰذا اصلاح معاشرہ کی ایک یہی صورت ہو گی کہ انسان جہاں اپنے حقوق کا تحفظ چاہتا ہے وہاں دوسروں کے حقوق کا بھی پاس و لحاظ رکھے۔ اسلام جو پر امن معاشرہ اور خوشگوار ماحول کی تشکیل چاہتا ہے اس نے حقوق انسانی کی حد بندی کی اور انسان کے مزاج اور اس کی طبیعت کے مقتضیات کو دیکھتے ہوئے ہر ایسے اقدام سے سختی کے ساتھ منع کیا جس سے دوسروں کے حقوق پر اثر پڑتا ہو۔

حضرتؑ نے اس دُعا میں حقوق العباد کی اہمیت بیان کرتے ہوئے انہیں چار قسموں پر تقسیم فرمایا ہے۔اس طرح کہ اس حق کا تعلق یا کسی شخص کی ذات سے ہوتا ہے، جیسے اس کا کوئی عضو بے کار کر دینا یا اسے زخمی کرنا یا اسے قتل کر دینا۔ یا اس کا تعلق اس کی عزت و حیثیت عرفی سے ہوتا ہے، جیسے اسے گالی دینا، اس پر تہمت باندھنا، بدگوئی یا تذلیل و اہانت کرنا۔ یا اس کا تعلق مال سے ہوتا ہے، جیسے قرضہ لے کر ادا نہ کرنا، امانت میں خیانت کرنا، کسی مالی حق کو دبا لینا یا مالی نقصان پہنچانا۔ یا اس کا تعلق اہل خانہ سے ہوتا ہے جیسے اس کے ناموس پر حملہ آور ہونا اور زنا وغیرہ کا ارتکاب کرنا۔

اس طرح کا خاطی و مجرم صرف ایک ہی فرد کے سامنے جواب دہ نہیں ہے بلکہ تمام معاشرہ کے سامنے جواب دہ ہے۔ اس لئے کہ اس نے اپنے عمل سے صرف ایک فرد کو نقصان نہیں پہنچایا بلکہ پورے نظام معاشرہ کو اپنی غلط کارانہ روش سے نقصان پہنچایا ہے۔ اب اگر وہ اپنے حرکات پر نادم ہو کر توبہ کرنا چاہے تو ان حقوق و مظالم سے سبکدوشی حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ وہ ان کا امکانی تدارک کرے:

اس طرح کہ اگر جسمانی گزند پہنچایا ہو تو اپنے کو قصاص کیلئے پیش کرے یا خوشامد در آمد اور حسن سلوک سے اس کی رضا کے حصول کی کوشش کرے اور اسے بحل کرائے۔ اور اگر صاحب حق تک رسائی نہ ہو سکے تو اللہ تعالیٰ کے حضور تضرع و زاری سے التجا کرے کہ وہ صاحب حق کو اس سے راضی کر دے اور اس کیلئے پہیم اعمالِ خیر بجا لائے تا کہ اس کے حق کا کچھ عوض ہو سکے۔

اور اگر غیبت، بہتان، دشنام وغیرہ سے اس کی عزت کو مجروح کیا ہو تو اس سے اظہارِ ندامت کرتے ہوئے معافی مانگے اور منت خوشامد کرکے اس حق کو بخشوائے۔ اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو اس کے حق میں دُعائے خیر کرے اور اس کیلئے اعمال حسنہ بجا لائے تا کہ اس کے حق کی کچھ تلافی ہو سکے اور اس بدگوئی و الزام تراشی سے جو دوسروں کو غلط فہمی پیدا ہوئی ہے اس کا تا حد امکان ازالہ کرے اور اپنی دروغ گوئی و غلط بیانی کا اقرار کرے۔

اور اگر اس کا تعلق مال سے ہو تو صاحب مال کو مال واپس کرے، جیسے غصب، خیانت، رشوت، چوری وغیرہ سے حاصل کیا ہوا روپیہ۔ اور اگر صاحب حق تک پہنچانا ممکن نہ ہو جیسے لاٹری، معمّا وغیرہ سے حاصل کیا ہوا مال، تو صاحب مال کی طرف سے فقرا پر تصدق کرے۔ اور اگر مال حلال کے ساتھ مخلوط ہو چکا ہو تو اس میں سے خمس ادا کرے۔ اور اگر مالی استطاعت ختم ہو گئی ہو تو اس سے بخشوائے۔ اور اگر وہ نہ بخشے یا اس تک رسائی نہ ہو سکے تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں گڑگڑائے اور صاحب حق کیلئے دُعائے مغفرت کرے اور اس کیلئے اعمال خیر بجا لائے، تا کہ خداوند عالم صاحب حق کو اس کے حق کا عوض دے کر اس سے راضی کر دے۔

اور اگر اہل خانہ کی ناموس و حرمت کے متعلق ہو اور انسانی شرافت کے دامن کو داغدار کیا ہو تو اس دھبے کو چھڑانا اور مظلمہ سے سبکدوش ہونا آسان نہیں ہے۔ کیونکہ اس جرم اور گھنونے جرم کی تلافی کی کوئی صورت نہیں ہے۔ تا ہم اس کا امکانی تدارک وہ ہے جو علامہ شیخ بہاء الدین عاملی(رہ) نے شیخ صالح جزائریؒ کے استفتا کے جواب میں تحریر فرمایا ہے اور سیّد نعمت اللہ جزائری نے اسے شرح صحیفہ میں درج کیا ہے۔

خلاصۂ جواب یہ ہے کہ اگر زنا ایسی عورت سے کیا گیا ہو جو شوہر دار نہ ہو اور نہ اس پر کسی قسم کا جبر و اکراہ ہو تو یہ صرف اللہ کا گناہ ہے جس پر وہ محاسبہ کرے گا۔ اور اگر شوہر دار عورت سے اس کی رضامندی سے زنا کیا گیا ہو تو یہ اللہ کا گناہ اور شوہر کی حق تلفی ہے۔ اس لئے یہ اللہ کی نافرمانی کے لحاظ سے حقوق اللہ میں شمار ہو گا اور شوہر کے حق میں مداخلت کے اعتبار سے حقوق العباد میں محسوب ہو گا۔ اس بنا پر صاحبانِ حق دو ہوں گے۔ ایک اللہ اور دوسرے شوہر۔ اور اگر شوہر دار عورت سے زنا جبر و اکراہ سے کیا گیا ہو تو صاحبان حق تین ہوں گے: ایک اللہ، دوسرے شوہر دار عورت اور تیسرے شوہر۔ تو در صورتیکہ اس میں حق العباد کی شمولیت ہو، اس طرح کہ زنا میں جبر و تشدد کار فرما ہو، خواہ عورت شوہر دار ہو یا بے شوہر، یا شوہر دار عورت سے زنا کیا گیا ہو چاہے اس کی رضامندی ہو یا نہ، تو اس مظلمہ سے چھٹکارا حاصل کرنے کی صورت یہ ہے کہ وہ شوہر دار عورت کے شوہر سے اجمالا یہ کہے کہ تمہارا ایک مظلمہ میری گردن پر ہے جس کا تدارک ممکن نہیں ہے، کیونکہ وہ نہ مالی ہے نہ بدنی، تم اس سے درگزر کرو اور مجھے معاف کر دو۔ اور اسے کھلم کھلا بیان نہ کرے اور نہ زیادہ اہمیت دے کہ وہ کھٹک جائے اور ایک فتنہ اٹھ کھڑا ہو اور طرفین کی ذلت و رسوائی کا موجب بن جائے۔ اس کے بعد اگر وہ معاف کر دے تو اس طرف سے چھٹکارا ہو جائے گا۔ رہا اللہ کا گناہ، تو اس کی بارگاہ میں اظہار ندامت کرتے ہوئے گڑگڑائے اور عفو و درگزر کی التجا کرے۔

سیّد جزائری رحمہ اللہ نے اس جواب کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے ایک خدشہ کا بھی اظہار کیا ہے اور وہ یہ کہ اگر اس مظلمہ سے سبکدوشی حاصل کرنے کیلئے الفاظ اس قسم کے ہوں کہ جس سے اصل واقعہ پر تو پردہ ہی پڑا رہے اور وہ یہ سمجھے کہ اس کے اہل خانہ کی نسبت اس سے کوئی معمولی لغزش ہوئی ہو گی (جیسے دروازہ کی اَوٹ میں سے تانک جھانک کرتا رہا ہو گا یا ورغلانا چاہا ہو گا) تو بعید نہیں کہ وہ درگزر کرے اور اپنے حق کو معاف کر دے۔ اور اگر مظلمہ کی اصل نوعیت پر اسے مطلع کیا جائے تو ظاہر ہے کہ وہ در گزر کرنے کے بجائے مرنے مارنے پر آمادہ ہو جائے گا اور ایک فتنہ اٹھ کھڑا ہو گا تو در صورتیکہ یہ یقین ہو کہ کھلم کھلا بیان کر دینے سے وہ کبھی اس مظلمہ کو بحل کرے گا تو یہ سمجھنا کہ اس مظلمہ سے برائت کا پروانہ حاصل ہو گیا، بعید از فہم ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ زید، خالد کے ہاں سے مسلسل مالی خیانت کرتا رہے جو ایک معتد بہ رقم بن جائے اور اب اسے یہ خیال پیدا ہو کہ اس مظلمہ سے نجات حاصل کرے اور صاحب حق سے اس کا حق معاف کرائے تو خالد سے یہ کہے کہ میں تمہارا خطاوار ہوں اور تمہارا کچھ مال اِدھر ادھر کیا ہے وہ مجھے معاف کر دیجئے تا کہ میں اس مظلمہ سے نجات پاؤں اور اپنے مقام پر وہ یہ سمجھتا ہو کہ اگر میں نے رقم کی صحیح صحیح مقدار بتا دی تو وہ کبھی معاف نہیں کرے گا اور اپنے مال کا مطالبہ کرے گا، لیکن خالد ایک معمولی رقم سمجھ کر معاف کر دیتا ہے اور وہ اس سے یہ سمجھ لیتا ہے کہ اب مظلمہ برطرف ہو گیا، حالانکہ مظلمہ اسی صورت میں بر طرف ہو سکتا ہے جب اسے رقم کا کچھ اندازہ ہو۔ اسی طرح مسئلہ زیرِ بحث میں مظلمہ سے چھٹکارا اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب جرم کی اصل نوعیت آشکارہ ہو جائے۔

سیّد رحمہ اللہ کا یہ خدشہ اس طرح برطرف کیا جا سکتا ہے کہ وہ مظلمہ جو ناموس سے متعلق ہوتا ہے، قابل تدارک نہیں ہوتا اور مالی مظلمہ چاہے کتنا ہی گراں بار کیوں نہ ہو قابل تدارک ہے۔ اس طرح کہ وہ صحیح رقم ظاہر کرنے کے بعد اسے واپس لوٹا کر عہدہ برآ ہو سکتا ہے اور اگر استطاعت نہ ہو تو بالاقساط یا اپنے خدمات پیش کرکے سبکدوشی کی صورت پیدا کر سکتا ہے اور اس میں کسی فتنہ کے پیدا ہونے کا اندیشہ بھی نہیں ہے۔ لیکن ناموس کے معاملہ میں کسی تدارک کی گنجائش نہیں ہے۔ اور واضح طور پر بیان کرنے میں فتنہ و شورش کے برپا ہونے کا قوی اندیشہ ہے۔ لہٰذا اس محل کو اس مورد پر قیاس نہیں کیا جا سکتا جبکہ یہاں اس کے سوا اور کوئی چارہ کار ہی نہیں ہے۔

٭٭٭٭٭

[۱]۔ سورہ حج، آیت ۲۹

[۲]۔ سورہ صف، آیت ۲-۳

[۳]۔ الکافی، ج ۲، ص ۳۶۴

[۴]۔ سورہ بنی اسرائیل، آیت ۳۴

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button