شمع زندگیمیڈیا گیلری

338۔ بہترین ادب

كَفٰی اَدَباً لِنَفْسِكَ تَجَنُّبُكَ مَا كَرِهْتَهٗ لِغَيْرِكَ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۳۶۵)
تمھارے نفس کی اصلاح و آراستگی کے لئے یہی کافی ہے کہ جن چیزوں کو دوسروں کے لئے برا سمجھتے ہو ان سے خود بھی بچ کر رہو۔

کوئی شخص اس وقت تک کمال تک نہیں پہنچ سکتا جب تک اپنی ذات کے عیبوں کی اصلاح نہ کرلے اور اپنی ذات کی اصلاح اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اُسے اپنے عیبوں کی شناخت نہ ہو۔ ہر انسان کو اپنی ذات سے محبت ہوتی ہے اور یہ محبت بہت سے کام بھی کرواتی ہے۔ انسان علم حاصل کرتا ہے چونکہ یہ کمال ذات ہے۔ اسی طرح اگر اولاد سے محبت ختم ہو جائے تو زندگی کی خوشیاں ختم ہو جائیں۔ مگر یہ محبت حد سے بڑھ جائے تو بہت بڑا عیب بن جاتی ہے۔

خود پسندی و خود خواہی دوسروں کی اچھائیاں بھلا دیتی ہے۔ اور اپنے لیے دوسروں سے بے جا توقعات پیدا کر دیتی ہے اور اپنی کمزوریوں اور عیبوں پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ یوں انسان دوسروں کی کمزوریوں کو بڑی توجہ سے دیکھتا ہے اور ان پرتنقید کرتا ہے مگر اپنے عیب اسے نظر نہیں آتے بلکہ بعض اوقات انہی عیبوں کو اپنے لیے اچھائی اور قابل فخر سمجھتا ہے۔ دوسرا جھوٹ بولے تو غلط خود بولے تو صحیح، دوسرا ظلم کرے تو عیب اور خود کرے تو صحیح ہے۔

امیر المؤمنینؑ نے انسان کی اصلاح اور نفس کو انسانیت سے مزیّن کرنے کے لئے یہ اصول بیان فرما دیا کہ اپنے عیبوں کو پہچاننے کے لیے دوسروں کے عیبوں کو آئینہ بنا لو۔ جن کاموں اور عادتوں کو دوسروں میں دیکھتے ہو اور عیب شمار کرتے ہو انھیں اپنی ذات میں تلاش کرو کہ وہ عادتیں تمھارے اندر تو موجود نہیں۔ اگر ایسا ہے تو پہلے انھیں خود سے دور کرو یہی اصلاحِ ذات ہوگی اور یہی انسان کی زندگی کی کامیابی کا سبب ہوگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button