342۔ بخل
اَلبُخْلُ جَامِعُ مَسَاوِئِ الْعُيُوْبِ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۳۷۸)
بخل تمام برے عیوب کا مجموعہ ہے۔
انسان جتنا دوسرے انسانوں کے لیے مددگار و فائدہ رساں ہو اتنا ہی اس کا مقام انسانیت بلند ہوتا ہے۔ جتنی اس کی قوت و بساط ہو اس کے مطابق اسے دوسروں کی خدمت کرنی چاہیے۔ بخل ایک ایسی کمزوری و عیب ہے جو انسان کے پاس جو کچھ ہے اسے دوسروں کے فائدے کے لئے استعمال نہیں کرنے دیتا بلکہ بعض اوقات بخل اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے اس سے خود بھی فائدہ نہیں اٹھاتا اور اپنے کسی قریبی پر یہاں تک کہ بیوی بچوں پر بھی خرچ نہیں کرتا۔
امیر المؤمنینؑ نے یہاں بخل کو سب برائیوں کا مجموعہ قرار دیا ہے یعنی یہ دوسری برائیوں کی جڑ بن جاتا ہے۔ اللہ کے حقوق اس کے ذمہ ہیں، اس میں مال خرچ ہوتا ہے تو وہ ان حقوق کو ادا نہیں کرے گا اور ان واجبات کو بجا نہیں لائے گا۔ یوں بخل اسے خدا کی نا فرمانی پر آمادہ کر لیتا ہے۔ دوسرے انسانوں کے جو حقوق ہیں ان پر خرچ آتا ہے تو ان میں لا پرواہی کرتا ہے یوں رشتہ داروں سے تعلق توڑ لیتا ہے اور اچھا برتاؤ نہیں کرتا جو خود بہت بڑا گناہ ہے۔
یتیموں کی سسکیاں اور فقیروں کی آہیں اس پر اثر نہیں کرتیں۔ سخت دل بن جاتا ہے اور سخت دلی خود ایک بڑا عیب ہے۔ ساتھ ہی مال کے لالچ میں دھوکہ بازی، سود خوری اور ضرورت مندوں کی درخواست پر جھوٹ جیسے گناہوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
یہ بخل مال میں بھی ہوتا ہے، علم میں بھی ہوتا ہے، عہدے میں بھی ہوتا ہے اور افکار میں بھی ہوتا ہے۔ بخیل نہیں چاہتا کہ دوسرے اس کی ان چیزوں سے فائدہ اٹھائیں۔ امیر المؤمنینؑ نے یہ بھی فرمایا ’’بخل ایسی مہار ہے جس سے ہر برائی کی طرف کھنچ کر جایا جا سکتا ہے۔‘‘ رسول اللہ نے فرمایا: ’’بخل آگ کے درختوں میں سے ایک درخت ہے جو اس کی کسی شاخ کو پکڑے گا وہ اسے آگ میں لے جائے گی۔‘‘