345۔ پرکھے بغیربھروسا
اَلطُّمَاْنِيْنَةُ اِلٰى كُلِّ اَحَدٍ قَبْلَ الْاِخْتِبَارِ لَهٗ عَجْزٌ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۳۸۴)
پرکھے بغیر ہر ایک پر بھروسا کر لینا عجز و کمزوری ہے۔
انسان کا زندگی میں دوسروں کے ساتھ چلنا لازمی ہے اور اگر چلنا ہے تو ان پر اعتماد ضروری ہے۔ امیرالمؤمنینؑ فرماتے ہیں اگر آپ کسی کو آزمائے اور پرکھے بغیر اس پر اعتماد کر لیتے ہیں تو یہ آپ کی عقل و فکر کی کمزوری ہے۔ کیونکہ عقل مند کسی چیز کو پرکھے بغیر نہیں اپناتا۔ کسی کی حقیقت کو جانے بغیر اس کے ظاہر پر بھروسا کر لینا جہالت و حماقت ہے۔
اس فرمان سے دوستی کی اہمیت کا بھی پتہ چلتا ہے اور دوست کے انتخاب کا طریقہ بھی معلوم ہوتا ہے۔ انسان کے لیے دوست کا ہونا بہت ضروری ہے مگر ہر ہاتھ ملانے والے کو دوست بنا لینا بے وقوفی ہے۔ اس دور میں اس فرمان کی اہمیت اور بھی واضح ہے کیونکہ آدمیوں کی شکل میں شیطان اور خدمت گزاروں کے روپ میں خائن بہت زیادہ ہیں۔ البتہ عمومی افراد پر اتنا اعتماد کیا جا سکتا ہے جتنا ان سے متعلق کام ہے مگر کسی کو زندگی کا شریک بنانا ہے یا دوستی جیسے رشتہ میں پرونا ہے یا دین و دنیا کے کاموں میں اس پر اعتماد کرنا ہے، تو امتحان ضرور کریں۔
آپ نے مختلف مقامات پر ہر امتحان کے طریقے بھی بتائے ہیں مثلاً ایک یہ کہ اسے ناراض کر کے دیکھو اس کا برتاؤ آپ سے کیسا ہے۔ ہاں ایسا بھی ہوتا ہے کہ کئی تجربات سے کامیاب ہونے والے بھی کبھی دھوکہ دے جاتے ہیں تو اس قسم کے خوف کی وجہ سے انسان ہر کسی پر بداعتمادی بھی نہیں کر سکتا ورنہ زندگی ہی مشکل ہو جائے گی۔