348۔ کلام سے پہچان
تَكَلَّمُوْا تُعْرَفُوْا، فَاِنَّ الْمَرْءَ مَخْبُوءٌ تَحْتَ لِسَانِهٖ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۳۹۲)
بات کرو تاکہ پہچانے جاؤ، کیونکہ آدمی اپنی زباں کے نیچے چھپا ہوتا ہے۔
انسان کے لیے خلقت کے بعد جس نعمت کو خصوصیت سے قرآن مجید نے بیان کیا وہ بات کرنا اور بیان ہے۔ امیر المؤمنینؑ کے زبان اور گفتگو پر متعدد فرامین موجود ہیں۔ یہاں آپؑ نے فرمایا کہ بولو گے تو تمہاری پہچان ہوگی۔ اس لیے کہ کلام عقل کا ترجمان ہوتا ہے اور انسان زبان کے نیچے چھپا ہوتا ہے یعنی جب تک زبان نہیں ہلے گی اس کی حقیقت پوشیدہ رہے گی اگرچہ کسی کے اٹھنے بیٹھنے سے اندازہ ہو سکتا ہے مگر گفتگو پہچان کا بڑا ذریعہ ہے۔ آپ فون پر کسی سے بات کرتے ہیں، اسے دیکھا نہیں ہوتا مگر اس کے مقام و معیار کو بات سے سمجھ سکتے ہیں۔
کلام کی اہمیت کا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امیر المؤمنینؑ سے سوال کیا گیا بہترین چیز کون سی ہے فرمایا کلام ۔ پوچھا گیا بد ترین چیز کون سی ہے فرمایا کلام۔ یہ اس لیے کہ کلام ہی سے انسان کو عزت و آبرو ملتی ہے اور کلام ہی ذلت و شرمندگی کا سبب بنتا ہے۔ یعنی چپ رہنا یا بولنا خود کوئی اچھائی یا برائی کا معیار نہیں اگرچہ زیادہ بولنے سے منع کیا گیا ہے مگر بولنے کی موقع پر چپ رہنے کی بھی مذمت کی گئی ہے۔ آپ صاحب علم و ہنر ہیں مگر آپ چپ ہیں تو یہ اس ذخیرہ اندوز کے مانند ہے جو غلے کے ڈھیر رکھتا ہے مگر اس سے مستفید نہیں ہو رہا۔
اس فرمان کا یہ مفہوم بھی لیا جا سکتا ہے کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ معاشرے میں آپ کی پہچان ہو تو بولیں، اپنے اندر کے فضل و کمال کو دوسروں میں بانٹیں، لوگ آپ کی باتوں سے فائدہ اٹھائیں گے تو معاشرے میں آپ کا مقام بنے گا۔ آپ کی زبان میں لکنت ہے آپ کو زبان کے پورے قواعد کا علم نہیں ہے مگر زبان سے آپ دوسروں کے دلوں کی تسلی والے الفاظ یا دوسروں کی زندگی کو سنوارنے والے کلمات کہتے ہیں تو اس سے آپ کی ایک عظیم انسان کے طور پر پہچان ہوگی۔ کلام کا سلیقہ سیکھنا بہت اہم ہے۔ امام علیؑ سے بہتر کون ہوگا جو اپنے بارے میں فرماتے ہیں ’’ہم کلام کے امیر و فرمانروا ہیں۔‘‘