349۔ بات کا اثر
رُبَّ قَوْلٍ اَنْفَذُ مِنْ صَوْلٍ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۳۹۴)
بہت سے کلمے حملے سے زیادہ اثر رکھتے ہیں۔
انسان کی زندگی کو بگاڑنے یا سنوارنے میں زبان کا بہت اثر ہے۔ کہنے والا بعض اوقات ایک جملہ کہنے کی وجہ سے عزت و احترام کی بلندیوں تک پہنچ جاتا ہے اور کبھی ایک جملہ ہی اسے ذلت و پستی کے گڑھے میں دھکیل سکتا ہے۔ اسی طرح کسی کے لیے کہا ہوا ایک جملہ اس کی زندگی کو سنوار سکتا ہے اور ایک جملہ ہی اسے ذلیل و خوار کر سکتا ہے۔
امیرالمومنینؑ اس فرمان میں اسی بات کی طرف اشارہ فرماتے ہیں کہ ایک کلمہ کا انسانی زندگی پر کتنا اثر ہوتا ہے۔ ایک کلمہ اگر مثبت ہو اور عاقلانہ انداز میں کہا گیا ہو تو وہ اچھائی و سلامتی کی راہیں ہموار کر دیتا ہے اور مدتوں کی بھڑکی ہوئی جنگ کے شعلوں کو ٹھنڈا کر سکتا ہے اور ایسا ہی ایک جملہ اگر منفی طور پر استعمال ہو تو وہ آگ کے شعلے بھڑکا کر شہروں اور ملکوں کو ویران کر سکتا ہے۔
تاریخ میں کتنے خون ہیں جو ایک جملہ کی وجہ سے بہے اور کتنے ہی ایسے مثبت جملے ہیں جنھوں نے دشمن کو دوست بنا دیا۔ خاندانی اور گھریلو چپقلش اکثر انہی جملوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اس لیے آپؑ نے فرمایا کہ جملے کا اثر حملے سے زیادہ ہے۔ کہا گیا ہے کہ تلوار کا زخم کبھی بھر جاتا ہے مگر زبان کا زخم نہیں بھرتا۔
تیر کبھی خطا کر جاتا ہے مگر زبان کا وار خطا نہیں کرتا۔ تیر جسم کے کسی حصے کو بھی زخم کر سکتا ہے مثلاً ٹانگ پر لگا تو جان محفوظ رہی مگر زبان کا زخم دل پر ہی اثر کرتا ہے۔ امیرالمؤمنینؑ کلمے کی اہمیت اجاگر کر کے منفی کلمات سے پرہیز اور مثبت کلمات سے زندگیوں کو پر سکون بنانے کی راہنمائی فرما رہے ہیں۔