350۔ دو دن کی دنیا
وَ الدَّهْرُ يَوْمَانِ، يَوْمٌ لَكَ وَ يَوْمٌ عَلَيْكَ، فَإِذَا كَانَ لَكَ فَلَا تَبْطَرْ، وَ اِذَا كَانَ عَلَيْكَ فَاصْبِرْ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۳۹۶)
زمانہ دو دنوں پرمنقسم ہے۔ ایک دن تمہارے موافق ایک دن تمہارے مخالف۔ جب موافق ہو تو اتراؤ نہیں اور جب مخالف ہو تو صبر کرو۔
زندگی کو حالات کی دو متضاد کیفیتوں میں ایسی تقسیم کلام امیرالمومنینؑ کی عظمت کا ایک نمونہ ہے۔ زندگی کے دو مختلف پہلوؤں کے بیان سے آپ نے مختصر ترین الفاظ میں اسے گزارنے کا طریقہ بتا دیا۔ زندگی کا کبھی کسی کے موافق اور کبھی خواہش کے برخلاف ہونا انسان کے بس میں نہیں مگر دونوں حالتوں میں زندگی کیسے بسر کرنی ہے، یہ انسان کا اپنا اختیار ہے۔
زندگی میں جب خوشیاں اور کامیابیاں بٹ رہی ہوں اور زندگی انسان کی مرضی و خواہش کے مطابق مٹھاس تقسیم کر رہی ہو یا آپ کے فرمان کے مطابق زندگی آپ کی بن چکی ہو تو فخر و تکبر سے بچ کر گزارو اور جب زندگی تلخیوں، ناکامیوں، شکستوں اور دکھوں سے بھر چکی ہو تو اسے نا امیدی سے بچا کر صبر سے بسر کرو۔ دو متضاد اوقات و حالات سے گزرتے ہوئے یقین رکھنا چاہیے کہ یہ زندگی ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتی۔ اس لیے آپ کے حق میں ہو تو دھوکہ مت کھاؤ کہ ایسی ہی رہے گی ۔بڑے بڑے جب مطمئن ہوئے تو دنیا نے انہیں گرا کر حوادثات کے پاؤں تلے پامال کر دیا اور مشکلوں میں گھرے ہوؤں نے صبر و حوصلہ سے کام لیا تو زندگی نے انھیں تخت پر بٹھا دیا۔
زندگی میں نعمات کی فراوانی ہو تو انھیں دیر تک باقی رکھنے کا نسخہ قرآن مجید نے بتایا کہ شکر کرو تو نہ فقط باقی رہیں گی بلکہ نعمات بڑھیں گی۔ شکر کا طریقہ یہ ہے کہ جو دنیا کے دکھوں میں گھرے ہوئےہیں ان نعمات سے ان کے دکھ دور کرو اور جب دنیا کے دکھ غلبہ کر لیں تو شکست نہ کھاؤ بلکہ یقین رکھو کہ دنیا کے حالات بدلتے رہتے ہیں۔ انسان اگر حوصلہ و صبر سے کام لے کر اپنے اعصاب کو مضبوط کر کے ماہر پیراک کی طرح کچھ وقت کے لیے دنیا کے رخ کے ساتھ چلے تو جلد کنارہ پا لے گا۔ زندگی کا اتار چڑھاؤ مردوں کا امتحان ہوتا ہے کامیاب وہی ہوتا ہے جو بھولے نہیں، حقائق دنیا کو سمجھ لے تو غرور و نا امیدی سے محفوظ رہے گا اور دونوں صورتوں میں کامیابی اسی کی ہوگی۔