351۔ تکبر
ضَعْ فَخْرَکَ، وَ احْطُطْ کِبْرَکَ، وَاذْکُرْ قَبْرَکَ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۳۹۸)
فخر کو چھوڑو، تکبر کو مٹاؤ اور قبر کو یاد رکھو۔
انسان کمال تک پہنچنے میں جن رکاوٹوں سے دو چار ہوتا ہے ان کی ایک طویل فہرست ہے اور کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جو کمال تک پہنچے ہوئے انسان کو بلندی سے گرا بھی سکتی ہیں۔ ان گرانے والی چیزوں میں سے دو کا ذکر اس فرمان میں آیا ہے۔ ایک فخر اور دوسرا تکبر۔ کئی انسانوں میں بہت سے ایسے اوصاف و امتیازات ہوتے ہیں جو واقعاً قابل فخر ہوتے ہیں مثلاً صاحب علم و دانش، متقی و زاہد، سخی و دردمند ہونا قابل فخر ہے مگر انہی اوصاف پر اگر کوئی خود فخر کرنے لگے یعنی خود کو دوسروں سے بڑا سمجھنے لگے اور دوسروں کو خود سے حقیر جاننے لگے تو یہ زوال کا سبب بن جاتا ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی زبان سے تو فخر نہ کرے مگر اپنے حقیقی یا خیالی کارناموں کی وجہ سے عمل میں تکبر کرنے لگے مثلاً عبادت کے غرور میں گناہگاروں اور خطاکاروں کو قابل بخشش نہ سمجھے اور ان کے قریب جا کر انھیں عبادت کی طرف راغب کرنے کے بجائے ان سے دوری اختیار کرے۔ مال پر زبان سے تو فخر نہ کرے مگر کسی غریب کے ساتھ بیٹھنا اپنے لیے توہین سمجھے۔ خاندان میں کوئی بھائی غریب ہے تو مال کے غرور میں اسے سلام کرنے سے کترائے بلکہ یہ چاہے کہ وہ اسے سلام کرے اور اگر وہ غریب اسے سلام نہ کرے تو اس کا حق اسے نہ دے۔ یہ عملی غرور بھی انسان کو کمال سے گرا دیتا ہے۔
تیسرے حصہ میں امیرالمؤمنینؑ نے ان دو بیماریوں کا علاج بیان فرمایا کہ اگر مال و دولت یا مقام و منزلت اور قدرت و قوت کی وجہ سے دوسروں پر برتری کا خیال پیدا ہو تو قبر کو یاد کرے۔ جہاں مال و دولت وغیرہ میں سے کچھ نہیں ہوگا۔ قبر کی یاد کے ذریعہ فخر و تکبر کے مرض سے چھٹکارا پا سکتا ہے۔ وہاں اپنی بے بسی کو یاد کر کے یہاں کے بے بس اور غریب و نادار اور مظلوم کی مدد کر کے ان کی محبت و الفت حاصل کر سکتا ہے، جو اس کی اس دنیا میں نیک نامی اور آخرت میں اچھے اجر کا سبب بن سکتی ہے۔