353۔ حِلم
اَلْحِلْمُ عَشِيرَْةٌ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۴۱۸)
حلم و تحمل ایک پورا قبیلہ ہے۔
انسان زندگی میں جتنی بلندیوں پر فائز ہوتا ہے اتنی ہی مخالفت کی تند و تیز ہواؤں سے اسے مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ جاہل و نادان لوگوں کی جہالت و نادانی کی وجہ سے سخت و توہین آمیز باتیں اور برتاؤ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ کبھی حسد کی وجہ سے اور کبھی ان کی بات نہ ماننے کی وجہ سے وہ مخالفت کرتے ہیں۔ یہاں واقعاً بلند آدمی وہی ہوگا جو حوصلہ و بردباری سے ان کے آزار سہ لے اور خاموشی و بزرگواری سے اپنے سفر کو جاری رکھے اور یہی قرآن کا حکم ہے کہ عقل مند لوگوں کا جب جاہل سے واسطہ پڑتا ہے تو سلام کہ کر گزر جاتے ہیں۔
امیرالمؤمنینؑ کا دو لفظوں کا یہ جملہ حلم کی اہمیت کو واضح کر رہا ہے اور اسی جملے سے خاندان کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے۔ خاندان میں دو چیزیں سرفہرست ہوتی ہیں۔ خاندان کے دوسرے افراد سے محبت اور خاندان کے کسی شخص سے زیادتی ہو تو دوسرے افراد اس کا دفاع اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ بردبار و حلیم شخص بھی اگر خاموش رہے تو لوگ اس کے کردار کی وجہ سے جاہل کے مقابلے میں اس سے محبت کریں گے اور اسی محبت کی وجہ سے اس کا دفاع بھی کریں گے۔
انسان اگر برا بھلا کہنے والے کے سامنے بردباری سے کام لے گا تو ممکن ہے اہانت کرنے والا خود بھی شرمندہ ہو مگر جاہل و نادان کا مقابلہ کیا جائے تو جاہل کی بھڑکائی ہوئی آگ بجھنے کے بجائے اور بھڑکے گی۔ بعض لوگ حلم کو کمزوری کی نشانی سمجھتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ حلم ایک طاقت ہے۔ غضب و غصہ پر کنٹرول کر کے نادان و متجاوز کے مقابلے میں عقل کے تقاضوں کے مطابق خاموش رہنا اس طاقت میں اضافہ کرتا ہے۔ حلم کے بہت سے فضائل بیان ہوئے ہیں۔ اسے علم کے بعد بہترین صفت قرار دیا گیا ہے بلکہ حلم کے بغیر علم کا بھی کوئی معیار نہیں۔