357۔ پاکیزہ خصلت
اِذَا كَانَ فِيْ رَجُلٍ خَلَّةٌ رَائِقَةٌ، فَانْتَظِرُوا اَخَوَاتِهَا۔ (نہج البلاغہ حکمت ۴۴۵)
اگر کسی آدمی میں ایک پاکیزہ خصلت ہو تو ویسی ہی دوسری خصلتوں کی بھی توقع رکھو۔
انسان کی پہچان یا معرفتِ انسان ایک اہم موضوع ہے۔ کسی سے آپ کو کوئی تعلق جوڑنا ہے تو اس کی پہچان لازمی ہے تاکہ اس کے مطابق برتاؤ کیا جائے۔ امیرالمومنینؑ نے انسان کی پہچان کا ایک آسان سا طریقہ بتا دیا ہے کہ کسی شخص کے ایک عمل یا کردار کو، ایک عادت و خصلت کو دیکھ کر اس کی کافی پہچان ہو جاتی ہے۔ جیسے ایک درخت پر لگے بے شمار پھلوں میں سے ایک دانہ چکھ کر دوسرے تمام پھلوں کا ذائقہ جانا جا سکتا ہے۔ اسی طرح انسان کی ایک عادت کو دیکھ کر باقی عادات کابھی اندازہ ہو جاتا ہے۔ کہیں آپ کو زمین کھودنے پر قیمتی پتھر ملے تو آپ اسی زمین میں ویسے ہی قیمتی پتھروں کی توقع کر سکتے ہیں اور کہیں کوئلہ نکلے تو باقی بھی کوئلے ہی کی امید کی جا سکتی ہے۔
انسان کا عمل اس کے باطن کی نشاندہی کرتا ہے اور جب باطن سے اچھائی ظاہر ہو رہی ہے تو مقصد یہ ہے کہ باطن میں اچھائی پائی جاتی ہے۔ ایک اچھائی ظاہر ہو تو باقی بھی اچھائیاں ہوں گی اور اگر اندر پلید ہو تو باقی عمل میں بھی وہی پلیدی نظر آئے گی۔ امیرالمومنینؑ نے یہاں ایک کلیہ و قاعدہ بتایا ہے، بعض مقامات اس سے مستثنی اور الگ بھی ہو سکتے ہیں مگر بہت کم۔ اس فرمان سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ بعض خطائیں دوسرے کئی گناہوں کی بنیاد ہوتی ہیں۔ جیسے بخل بہت سے دوسری بیماریوں کی بنیاد ہے تو جس میں بخل نظر آیا گویا کئی دوسری بری عادتیں اس میں موجود ہیں اور زہد بہت سی خوبیوں کی چابی ہے جس میں زہد نظر آئے گا گویا اس میں کئی اچھائیوں کی بنیاد قائم ہے۔